ایک شخص سونا بنانے کا دعویٰ رکھتا ہے اور سونے پر ہی ایک بوٹی ڈال کر کہتا ہے کہ لو سونا ہوگیا۔ اِس سے کیا یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ وہ کیمیاگر ہے۔ سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کا کمال تو اس میں تھا کہ اُمّتی کو وہ درجہ و رزش اتباع سے پیدا ہو جائے ورنہ ایک نبی کو جو پہلے ہی نبی قرار پا چکا ہے اُمّتی قرار دینا اور پھر یہ تصور کر لینا کہ جو اس کو مرتبہ نبوت حاصل ہے وہ بوجہ اُمّتی ہونے کے ہے نہ خود بخود یہ کس قدر دروغ بے فروغ ہے۔ بلکہ یہ دونوں حقیقتیں متناقض ہیں کیونکہ حضرت مسیح کی حقیقت نبوت یہ ہے کہ وہ براہِ راست بغیر اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کو حاصل ہے۔ اور پھر اگر حضرت عیسیٰ کو اُمّتی بنایا جاوے جیسا کہ حدیث امامکم منکم سے مترشح ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہر ایک کمال ان کا نبوت محمدیہ سے مستفاض ہے اور ابھی ہم فرض کرچکے تھے کہ کمال نبوت اُن کی کا چراغ نبوت محمدیہ سے مستفاض نہیں ہے اور یہی اجتماع نقیضین ہے جو بالبداہت باطل ہے اور اگر کہو کہ حضرت عیسٰی امتی تو کہلائیں گے مگر نبوت محمدیہ سے ان کو کچھ فیض نہ ہوگا تو اِس صورت میں امتی ہونے کی حقیقت اُن کے نفس میں سے مفقود ہوگی۔ کیونکہ ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں کہ اُمّتی ہونے کے بجُز اِس کے اور کوئی معنی نہیں کہ تمام کمال اپنا اتباع کے ذریعہ سے رکھتا ہو جیسا کہ قرآن شریف میں جابجا اس کی تصریح موجود ہے اور جبکہ ایک اُمّتی کیلئے یہ دروازہ کھلا ہے کہ اپنے نبی متبوع سے یہ فیض حاصل کرے توپھر ایک بناوٹ کی راہ اختیار کرنا اور اجتماع نقیضین جائز رکھنا کس قدر حمق ہے اور وہ شخص کیونکر اُمتی کہلا سکتا ہے جس کو کوئی کمال بذریعہ اتباع حاصل نہیں۔ اس جگہ بعض نادانوں کا یہ اعتراض بھی دفع ہو جاتا ہے کہ وحی الٰہی کے دعویٰ کو یہ امر مستلزم ہے کہ وہ وحی اپنی زبان میں ہو نہ عربی میں۔ کیونکہ اپنی مادری زبان اس شخص کیلئے لازم ہے جو مستقل طور پر بغیر استفادہ مشکوٰۃ نبوت محمدی کے دعویٰءِ نبوت کرتا ہے لیکن جو شخص بحیثیت ایک امتی ہونے کے فیض نبوت محمدیہ سے اکتساب انوار نبوت کرتا ہے وہ مکالمہ الٰہیہ میں اپنے متبوع کی زبان میں وحی پاتا ہے تا تابع اور متبوع میں ایک علامت ہو جو ان کے باہمی تعلّق پر دلالت کرے۔ افسوس حضرت عیسیٰ پر ہر ایک طور سے یہ لوگ ظلم کرتے ہیں۔ اوّل بغیر تصفیہ اعتراض *** کے ان کے جسم کو آسمان پر چڑہاتے ہیں جس سے اصل اعتراض یہودیوں کا ان کے سر پر قائم رہتا ہے۔ دوسرے کہتے ہیں کہ قرآن میں ان کی موت کا کہیں ذکر نہیں۔ گویا ان کی خدائی کیلئے ایک وجہ پیدا کرتے ہیں۔ تیسری نامرادی کی حالت میں آسمان کی طرف ان کو کھینچتے ہیں۔ جس نبی کے ابھی بارا۱۲ ں حواری بھی زمین پر موجود نہیں اور کار تبلیغ ناتمام ہے اُس کو آسمان کی طرف کھینچنا اُس کیلئے ایک دوزخ ہے کیونکہ رُوح اس کی تکمیل تبلیغ کو چاہتی ہے اور اس کو برخلاف مرضی اس کی آسمان پر بٹھایا جاتا ہے۔ مَیں اپنے نفس کی نسبت دیکھتا ہوں کہ بغیر تکمیل اپنے کام کے اگر مَیں زندہ آسمان پر اُٹھایا جاؤں اور گو ساتویں آسمان تک پہنچایا جاؤں تو مَیں اِس میں خوش نہیں ہوں کیونکہ جب میرا کام ناقص رہا تو مجھے کیا خوشی ہو سکتی ہے۔ ایسا ہی ان کو بھی آسمان پر جانے سے کوئی خوشی نہیں۔ مخفی طور پر ایک ہجرت تھی جس کو نادانوں نے آسمان قرار دے دیا خدا ہدایت کرے۔
والسّلا م علٰی من اتبع الہدٰی۔ المشتھر میرزا غلام احمد قادیانی ۲۷؍ نومبر ۱۹۰۲ء