جیسا کہ وہ جلّ شانہٗ قرآن شریف میں فرماتا ہے3 3 ۱؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مَردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ہے مگر وہ رسول اللہ ہے اور خاتم الانبیاء ہے۔ اب ظاہر ہے کہ لٰکن کا لفظ زبان عرب میں استدراک کے لئے آتا ہے یعنی تدارک مافات کے لئے۔ سو اِس آیت کے پہلے حصّہ میں جو امر فوت شدہ قرار دیا گیا تھا یعنی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے نفی کی گئی تھی وہ جسمانی طور سے کسیؔ مرد کا باپ ہونا تھا۔ سو لٰکن کے لفظ کے ساتھ ایسے فوت شدہ امر کا اِس طرح تدارک کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد براہِ راست فیوض نبوت منقطع ہوگئے۔ اور اب کمال نبوت صرف اُسی شخص کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبوی کی مہر رکھتا ہوگا اور اِس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہوگا۔ غرض اِس آیت میں ایک طور سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی اور دوسرے طور سے باپ ہونے کا اثبات بھی کیا گیا تا وہ اعتراض جس کا ذکر آیت 3۲؂ میں ہے دُور کیا جائے۔ ماحصل اِس آیت کا یہ ہوا کہ نبوت گو بغیر شریعت ہو۔ اِس طرح پر تو منقطع ہے کہ کوئی شخص براہِ راست مقامِ نبوت حاصل کرسکے لیکن اِس طرح پر ممتنع نہیں کہ وہ نبوت چراغ نبوت محمدیہ سے مکتسب اور مستفاض ہو یعنی ایسا صاحب کمال ایک جہت سے تو اُمّتی ہو اور دوسری جہت سے بوجہ اکتساب انوارِ محمدیہ نبوت کے کمالات بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور اگر اِس طور سے بھی تکمیل نفوس مستعدہ اُمّت کی نفی کی جائے تو اِس سے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طور سے ابتر ٹھہرتے ہیں نہ جسمانی طورپر کوئی فرزند نہ روحانی طور پر کوئی فرزند اور معترض سچا ٹھہرتا ہے جو آنحضرت صلعم کا نام ابتر رکھتا ہے۔ اب جبکہ یہ بات طے پا چکی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت مستقلہ جو