خدا کے قطعی اور یقینی کلام کو بطور متروک اور مہجور کے قرار دے دیں اور اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ ایسی حدیثوں کوجن کے بیانات کتاب اللہ سے مخالف ہیں یا تو چھوڑ دیں اور یا اُن کی کتاب اللہ سے تطبیق کریں پس یہ وہ افراط کی راہ ہے جو مولوی محمد حسین نے اختیار کر رکھی ہے۔ اور ان کے مخالف مولوی عبداللہ صاحب نے تفریط کی راہ پر قدم مارا ہے جو سرے سے احادیث سے انکار کر دیا ہے اور احادیث سے انکار ایک طور سے قرآن شریف کا بھی انکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ 33 ۱؂ پس جبکہ خدا تعالیٰ کی محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے وابستہ ہے اور آنجناب کے عملی نمونوں کے دریافت کیلئے جن پر اتباع موقوف ہے حدیث بھی ایک ذریعہ ہے۔ پس جو شخص حدیث کو چھوڑتا ہے وہ طریق اتباع کو بھی چھوڑتا ہے اور مولوی عبداللہ صاحب کا یہ قول کہ تمام حدیثیں محض شکوک اور ظنون کا ذخیرہ ہے۔ یہ قلّت تدبّر کی ؔ وجہ سے خیال پیدا ہوا ہے اور اِس خیال کی اصل جڑ محدّثین کی ایک غلط اور نامکمل تقسیم ہے جس نے بہت سے لوگوں کو دھوکا دیا ہے کیونکہ وہ یوں تقسیم کرتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں ایک تو کتاب اللہ ہے اور دوسری حدیث۔ اور حدیث کتاب اللہ پر قاضی ہے گویا احادیث ایک قاضی یا جج کی طرح کُرسی پر بیٹھی ہیں اور قرآن اُن کے سامنے ایک مستغیث کی طرح کھڑا ہے اور حدیث کے حکم کے تابع ہے۔ ایسی تقریر سے بیشک ہر ایک کو دھوکا لگے گا کہ جبکہ حدیثیں سَو ڈیڑھ سو برس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جمع کی گئی ہیں اور انسانی ہاتھوں کے مس سے وہ خالی نہیں ہیں اور با ایں ہمہ وہ اَحاد کا ذخیرہ اور ظنّی ہیں اور اُن میں قسم متواترات شاذو نادر جو حکم معدوم کا رکھتی ہیں اور پھر وہی قرآن شریف پر قاضی بھی ہیں تو اِس سے لازم آتا ہے کہ تمام دین اسلام ظنّیات کا ایک تودہ اور انبار ہے اور ظاہر ہے کہ ظنّ کوئی چیز نہیں ہے اور جو شخص محض ظنّ کو پنجہ مارتا ہے وہ مقام بلند حق سے بہت نیچے گِرا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے33۲؂ یعنی محض ظنّ حق الیقین کے مقابلہ پر کچھ چیز نہیں۔ پس قرآن شریف تو