تبدیلی کی جس کے ذکر کی اِس جگہ ضرورت نہیں اور شاید مسائل حج و زکوٰۃوغیرہ میں بھی تبدیلی کی ہوگی لیکن کیا یہ سچ ہے کہ حدیثیں ایسی ہی ردّی اور لغو ہیں جیسا کہ مولوی عبداللہ صاحب نے سمجھا ہے معاذ اللہ ہرگز نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان ہر دو فریق میں سے ایک فریق نے افراط کی راہ اختیار کر رکھی ہے اور دوسرے نے تفریطؔ کی۔ فریق اوّل یعنی مولوی محمد حسین صاحب اگرچہ اس بات میں سچ پر ہیں کہ احادیث نبویّہ مرفوعہ متصلہ ایسی چیز نہیں ہیں کہ اُن کو ردّی اور لغو سمجھا جائے لیکن وہ حفظ مراتب کے قاعدہ کو فراموش کر کے احادیث کے مرتبہ کو اس بلند مینار پر چڑھاتے ہیں جس سے قرآن شریف کی ہتک لازم آتی ہے اور اس سے انکار کرناپڑتا ہے اور کتاب اللہ کی مخالفت اور معارضت کی وہ کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے اور حدیث کے قصّہ کو اُن قصّوں پر ترجیح دیتے ہیں جو کتاب اللہ میں بتصریح موجود ہیں اور حدیث کے بیان کو کلام اللہ کے بیان پر ہر ایک حالت میں مقدم سمجھتے ہیں اور یہ صریح غلطی اور جادۂ انصاف سے تجاوز ہے۔ اللہ جلّ شانہٗ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔3َ ۱؂۔ یعنی خدا اور اُس کی آیتوں کے بعد کس حدیث پر ایمان لائیں گے۔ اِس جگہ حدیث کے لفظ کی تنکیر جو فائدہ عموم کا دیتی ہے صاف بتلارہی ہے کہ جو حدیث قرآن کے معارض اور مخالف پڑے اور کوئی راہ تطبیق کی پیدا نہ ہو۔ اُس کو ردّ کردو۔ اور اس حدیث میں ایک پیشگوئی بھی ہے جو بطور اشارۃ النص اس آیت سے مترشح ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ آیۃ ممدوحہ میں اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی اس اُمّت پر آنے والا ہے کہ جب بعض افراداس امّت کے قرآن شریف کو چھوڑ کر ایسی حدیثوں پر بھی عمل کریں گے جن کے بیان کردہ بیان قرآن شریف کے بیانات سے مخالف اور معارض ہوں گے۔ غرض یہ فرقہ اہلِ حدیث اس بات میں افراط کی راہ پر قدم ماررہا ہے کہ قرآنی شہادت پر حدیث کے بیان کو مقدّم سمجھتے ہیں اور اگر وہ انصاف اور خدا ترسی سے کام لیتے تو ایسی حدیثوں کی تطبیق قرآن شریف سے کر سکتے تھے مگر وہ اِس بات پر راضی ہوگئے کہ