یوں ہاتھ سے گیا کہ وہ بغیر قاضی صاحب کے فتووں کے واجب العمل نہیں اور متروک اور مہجور ہے اور قاضی صاحب یعنی احادیث صرف ظن کے میلے کچیلے کپڑے زیب تن رکھتے ہیں جن سے احتمال کذب کسی طرح مرتفع نہیں۔ کیونکہ ظن کی تعریف یہی ہے کہ وہ دروغ کے احتمال سے خالی نہیں ہوتا۔ پس اس صورت میں نہ تو قرآن ہمارے ہاتھ میں رہا اور نہ حدیث اس لائق کہ اس پر بھروسہ ہو سکے۔ گویا دونوں ہاتھ سے گئے یہ غلطی ہے جس نے اکثر لوگوں کو ہلاک کیا *۔
اور صراط مستقیم جس کو ظاہر کرنے کیلئے مَیں نے اس مضمون کو لکھا ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کیلئے تین چیزیں ہیں (۱)قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کرہمارے ہا ؔ تھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے (۲) دوسری سُنّت اور اس جگہ ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں۔ یعنی ہم حدیث اور سُنّت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنّت الگ چیز۔ سُنّت سے مُراد ہماری صرف آنحضرتؐ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندرتواتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اور
* نوٹ: مَیں جب اشتہار کو ختم کر چکا شائد دو تین سطریں باقی تھیں تو خواب نے میرے پر زور کیا یہاں
تک کہ مَیں بمجبوری کاغذ کو ہاتھ سے چھوڑ کر سو گیا تو خواب میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی نظر کے سامنے آگئے۔ مَیں نے ان دونوں کو مخاطب کر کے یہ کہا خسف القمر و الشمس فی رمضان۔ فبايّ ٰالآءِ ربّکما تکذّبٰنیعنی چاند اور سُورج کو تو رمضان میں گرہن لگ چکا پس تم اے دونوں صاحبو! کیوں خدا کی نعمت کی تکذیب کررہے ہو۔پھر مَیں خواب میں اخویم مولوی عبدالکریم صاحب کو کہتا ہوں کہ ٰالآء سے مُراد اس جگہ مَیں ہوں۔ اور پھر مَیں نے ایک دالان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا کہ اس میں چراغ روشن ہے گویا رات کا وقت ہے اور اُسی الہام مندرجہ بالا کو چند آدمی چراغ کے سامنے قرآن شریف کھول کر اس سے یہ دونوں فقرے نقل کررہے ہیں گویا اسی ترتیب سے قرآن شریف میں وہ موجود ہے اور ان میں سے ایک شخص کو مَیں نے شناخت کیا کہ میاں نبی بخش صاحب رفوگر امرتسری ہیں۔ منہ