فریقین کی تحریرات سے معلوم ہوا کہ مباحثہ مندرجہ عنوان کے پیش آنے کی وجہ یہ تھی کہ مولوی عبداللہ صاحب احادیث نبویہ کو محض ردّی کی طرح خیال کرتے ہیں اور ایسے الفاظ منہ پر لاتے ہیں جن کا ذکر کرنا بھی سُوءِ ادب میں داخل ہے اور مولوی محمد حسین صاحب نے اُن کے مقابل پر یہ حجت پیش کی تھی کہ اگر احادیث ایسی ہی ردّ ی اور لغو اور ناقابل اعتبار ہیں تو اِس سے اکثر حصّے عبادات اور مسائل فقہ کے باطل ہو جائیں گے کیونکہ احکام قرآن کی تفاصیل کا پتہ حدیث کے ذریعہ سے ہی ملتا ہے ورنہ اگر صرف قرآن کو ہی کافی سمجھا جائے تو پھر محض قرآن کے رُو سے اِس پر کیا دلیل ہے کہ فریضہ صبح کی دو رکعت اور مغرب کی تین رکعت اور باقی تین نمازیں چار چار رکعت ہیں۔ یہ اعتراض ایک زبردست پیرایہ میں ہے گو اپنے اندر ایک غلطی رکھتا ہے یہی وجہ تھی کہ اس اعتراض کا مولوی عبداللہ صاحب نے کوئی شافی جواب نہیں دیا۔ محض فضول باتیں ہیں جو لکھنے کے بھی لائق نہیں۔ ہاں اس اعتراض کا نتیجہ آخرکار یہ ہوا کہ مولوی عبداللہ صاحب کو ایک نئی نماز بنانی پڑی جس کا جمیع اسلام کے فرقوں میں نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ اُنہوں نے التّحیات اور درود اور دیگر تمام ادعیہ ماثورہ جو نماز میں پڑھی جاتی ہیں درمیان سے اُڑا دیں اور اُن کی جگہ صرف قرآنی آیتیں رکھ دیں۔ ایسا ہی اور بہت کچھ نماز میں