یہ رسالہ اُن تمام صاحبوں کی خدمت میں جو اِس قصیدہ میں مخاطب ہیں بذریعہ رجسٹری روانہ کردوں گا۔ بالآخر مَیں اِس بات پر بھی راضی ہوگیا ہوں کہ ان تمام مخالفوں کو جواب مذکورہ بالا کے لکھنے اور شائع کرنے کے لئے پندرہ روز کی مہلت دوں کیونکہ اگر وہ زیادہ سے زیادہ بحث کریں تو انہیں اِس صورت میں کہ ۱۸ یا ۱۹؍ نومبر ۲ ء ؁ تک میرا قصیدہ اُن کے پاس پہنچ جائے گا۔ بہرحال ماننا پڑے گا کہ یکم نومبر ۲ ء ؁ سے نصف نومبر تک پندرہ دن ہوئے مگر تاہم مَیں نے اُن کی حالت پر رحم کر کے اتمام حجت کے طور پر پانچ دن اُن کے لئے اور زیادہ کر دےئے ہیں اور ڈاک کے دن ان دنوں سے باہر ہیں۔ پس ہم جھگڑے سے کنارہ کرنے کے لئے تین دن ڈاک کے فرض کر لیتے ہیں یعنی ۱۷۔۱۸۔۱۹؍ نومبر ۲ ء ؁ ۔ اِن دنوں تک بہرحال اُن کے پاس جابجا یہ قصیدہ پہنچ جائے گا۔ اب اُن کی میعاد ۲۰؍نومبر سے شروع ہوگی۔ پس اِس طرح پر دس دسمبر ۲ ء ؁ تک اِس میعاد کا خاتمہ ہوجائے گا۔ پھر اگر بیس دن میں جو دسمبر ۲ ء ؁ کی دسویں کے دِن کی شام تک ختم ہو جائے گی۔ اُنہوں نے اِس قصیدہ اور اُردو مضمون کا جواب چھاپ کر شائع کر دیا تو یُوں سمجھو کہ مَیں نیست و نابود ہوگیا اور میرا سلسلہ باطل ہوگیا۔ اِس صورت میں میری تمام جماعت کو چاہئے کہ مجھے چھوڑ دیں اور قطع تعلق کریں لیکن اگر اب بھی مخالفوں نے عمداً کنارہ کشی کی تو نہ صرف دس ہزار روپے کے انعام سے محروم رہیں گے بلکہ دس لعنتیں اُن کا ازلی حصّہ ہوگا اور اِس انعام میں سے ثناء اللہ کو پانچ ہزار ملے گا۔ اور باقی پانچ کو اگر فتح یاب ہوگئے ایک ایک ہزار ملے گا۔ وَالسَّلام عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الھُدٰی خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی