مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ یہ تقریر پہلے بنائی گئی ہے اور ایک مُدّت تک سوچ کر لکھی گئی ہے۔ پس اگر اب بھی کہہ دیں کہ یہ اعجاز المسیح ستّر دن میں نہیں بلکہ ستّر مہینے میں بنائی گئی ہے تو اب یہ امر عوام کی نظر میں مشتبہ ہو جائے گا اور مَیں چند روز اِسی فکر میں تھا کہ کیا کروں آخر ۶؍نومبر ۱۹۰۲ء کی شام کو میرے دل میں ڈالا گیا کہ ایک قصیدہ مقام مُدّ کے مباحثہ کے متعلق بناؤں کیونکہ بہرحال قصیدہ بنانے کا زمانہ یقینی اور قطعی ہے کیونکہ اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ۲۹؍ اور ۳۰؍ اکتو بر ۱۹۰۲ء کو بمقام مُدّ بحث ہوئی تھی اور پھر دوسری نومبر کو ہمارے دوست قادیان پہنچے اور ۷ ؍ نومبر ۲ ء کو مَیں ایک گواہی کے لئے منشی نصیرالدّین صاحبمنصف عدالت بٹالہ کی کچہری میں گیا شاید مَیں نے ایک یا دو شعر راہ میں بنائے مگر ۸؍ نومبر ۲ ء کو قصیدہ پوری توجہ سے شروع کیا اور پانچ دن تک قصیدہ اور اُردو مضمون ختم کرلیا اس لئے یہ امر شک و شبہ سے پاک ہوگیا کہ کتنی مُدّت میں قصیدہ بنایا گیا کیونکہ اس قصیدہ میں اور نیز اُردو مضمون میں واقعات اُس بحث کے درج ہیں جو ۲۹؍ اور ۳۰؍ اکتوبر ۲ ء میں بمقام مُدّ ہوئی تھی پس اگر یہ قصیدہ اور اُردو مضمون اِس قلیل مُدت میں طیار نہیں ہوا اور پہلے اِس سے بنایا گیا تو پھر مجھے عالم الغیب ماننا چاہئے جس نے تمام واقعات کی پہلے سے خبر دی۔ غرض یہ ایک عظیم الشان نشان ہے اور نہایت سہل طریق فیصلہ کا۔ اور یاد رہے کہ جیسا میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ یہ تمام مدت قصیدہ پر ہی خرچ نہیں ہوئی بلکہ اُس اُردو مضمون پر بھی خرچ ہوئی ہے جو اِس قصیدہ کے ساتھ شامل ہے اور وہ دونوں بہیئت مجموعی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہیں اور مقابلہ کیلئے اور دس ہزار روپیہ انعام پانے کیلئے یہ شرط ضروری ہے کہ جو شخص بالمقابل لکھے وہ ساتھ ہی اِس اُردو کا ردّ بھی لکھے جو میری وجوہات کو توڑ سکے جس کی عبارت ہماری عبارت سے کم نہ ہو اور اگر کوئی ان دونوں میں سے کسی کو چھوڑے گا تو وہ اِس شرط کا توڑنے والا ہوگا مَیں اپنے مخالفوں پر کوئی ایسی مشقت