دیناؔ چاہتے ہیں گناہ سے پاک ہونا بجز اس کے ممکن ہی نہیں کہ ہیبت اللہ کی موت یقین کی تیز شعاعوں کی وجہ سے انسان کے دل پر وارد ہو جائے اور سچی محبت اور سچی ہیبت دل میں بس جائے اور دل خدا کے جمال اور جلال سے رنگین ہو جائے اور یہ دونوں کیفیتیں کبھی اور ہرگز دل میں آ ہی نہیں سکتیں جب تک کہ خدا کی ہستی اور اس کی ان دونوں قسم کے صفات پر یقین پیدا نہ ہو ۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ نجات کی جڑاور نجات کا ذریعہ صرف یقین ہے۔ وہ یقین ہی ہے کہ باوجود بلاؤں کے سامنے کے اطاعت کے لئے گردن جھکا دیتا اور آگ میں داخل ہونے کے لئے کھڑا کر دیتا ہے وہ یقینی نظارہ ہی ہے جو عاشق بنا دیتا ہے اور مرنے کے لئے تیار کر دیتا ہے۔ وہ یقینی نظارہ ہی ہے کہ جس سے انسان خدا کے لئے آرام کا پہلو چھوڑتا اور مخلوق کی تعریف اور تحسین سے لاپرواہ ہو جاتا اور ایک کے لیے تمام دنیا کو اپنا خطرناک دشمن بنا لیتا ہے۔ انسان یقینی ہیبت کی وجہ سے مباح چیزوں کو بھی ڈرتا ڈرتا ہی استعمال کرتا ہے اور زبان کو ناگفتنی باتوں سے روکتا ہے گویا اس کے منہ میں سنگریزے ہیں اور یہ یقین یا تو دیدار سے میسر آتا ہے اور یا اس گفتار سے جو خدا کا یقینی کلام ہے جو اپنی طاقت اور شوکت اور دلکش خاصیت اور خوارق سے ثابت کر دیتا ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے بجز اس صورت کے نہ خدا کی ہستی پر یقین آ سکتا ہے اور نہ اس کی صفات پر۔ اب جس حالت میں یہ مانا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ یقینی کلام کسی بندہ پر نازل فرماوے اور اس کا وعدہ انعمت علیہم اس امکان کو ضروری ٹھہراتا ہے اور نجات بھی اس کلام الٰہی پر موقوف ہے جو یقینی ہو اور انسانی فطرت بھی اس کی پیاسی پائی جاتی ہے تو کیوں اور کیا وجہ کہ خدا اس فیض سے امت کو محروم رکھے۔ کیا انسان کی فطرت میں یہ جوش نہیں ڈالا گیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین پیدا کرے اور کوئی ایسا ذریعہ اس کو حاصل ہو جس سے وہ سمجھ لے کہ وہ اپنی تمام پاک صفات کے ساتھ درحقیقت موجود ہے مگر کیا وہ ذریعہ صرف آسمان اور زمین کی صنعتیں ہو سکتی ہیں ہرگز نہیں کیونکہ غایت درجہ ان سے صرف ضرورت خالق محسوس ہوتی ہے نہ کہ یہ کہ خالق درحقیقت موجود بھی ہے اور ضرورت خالق پر دلیل