رہےؔ کہ ضرور ان انعامات میں جو نبیوں کو دئیے گئے اس امت کے لئے حصہ رکھا گیا ہے کیونکہ اگر مسلمانوں کے کامل افراد کی فطرتوں میں یہ حصہ نہ ہوتا تو ان کے دلوں میں یہ خواہش نہ پائی جاتی کہ وہ خدا شناسی کے درجہ میں حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جائیں اور ان انعامات سے سب سے بڑھ کر یقینی مخاطبات اور مکالمات کا انعام ہے جس سے انسان اپنی خدا شناسی میں پوری ترقی کرتا ہے گویا ایک طور سے خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتا ہے اور اس کی ہستی پر رویت کے رنگ میں ایمان لاتا ہے تب الٰہی ہیبت پورے طور پر اس کے دل پر کام کرتی ہے اور جیسا کہ ہر ایک جگہ رویت اور یقین کا خاصہ ہے وہ خاصہ اس کے اندر اپنا کام کرنے لگتا ہے اور شکوک اور شبہات کی تاریکی اس طرح دور ہو جاتی ہے جیسا کہ آفتاب سے ظلمت۔ تب روئے زمین پر اس جیسا کوئی اتقٰی نہیں ہوتا اور اس جیسا کوئی گناہ سے بیزار نہیں ہوتا اور اس جیسا اس خالق یگانہ سے کوئی محبت کرنے والا نہیں ہوتا اور اس جیسا اس یار کا کوئی وفادار نہیں ہوتا ۔ اور اس جیسا کوئی ڈرنے والا نہیں ہوتا اور اس جیسا کوئی توکل کرنے والا نہیں ہوتا ۔ اور اس جیسا پیوند میں کوئی صادق نہیں ہوتا۔ اور جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہے یقینی اور قطعی وحی کا قیامت کے دن تک اس امت کو وعدہ کیا گیا ہے ایسا ہی عقل بھی نوع انسان کے لئے اس کو ضروری سمجھتی ہے کیونکہ گناہ اور فسق و فجور کا علاج اور چارہ بجز اس کے اور کوئی نہیں کہ خدا کا جمال اور جلال یقینی طور پر انسان پر مکشوف ہو۔ وجہ یہ کہ تجربہ گواہی دے رہا ہے کہ یا تو سچی محبت گناہ اور مخالفت سے روکتی ہے یا سچی ہیبت نافرمانیوں سے باز رکھتی ہے اور سچی محبت میں بھی ایک خوف ہوتا ہے اور وہ یہی کہ یار مہربان سے تعلق نہ ٹوٹ جائے اور جس پر سچی محبت اور سچی ہیبت کی کیفیت یقینی طور پر وارد ہو اور یا وہ شخص کہ جو کامل طور پر اس شخص کا شناسندہ اور محبت کنندہ اور اس کا زیراثر ہو وہ بلاشبہ گناہ سے روک لیا جاتا ہے اور دوسرے لوگ دنیا میں جس قدر ہیں ان میں سے کوئی بھی گناہ کے زہر سے خالی نہیں۔ ہاں مکّاری سے بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہم بے گناہ ہیں اور ہمارے دلوں میں کوئی ناپاکی نہیں مگر وہ جھوٹے ہیں اور خدا اورمخلوق کو دھوکا