باقیؔ نہیں رہتا اور نہ وہ کہہ سکتا ہے کہ کل کا سورج تو یقینی تھا مگر آج کا شکی۔ پس کیا تم اس الہام میں شک کر سکتے ہو کہ خدائی چہرہ کا نور اپنے اندر رکھتا ہے کیا خداکی کلام کا طلوع سورج کے طلوع سے کچھ کمتر ہے کوئی چیز اپنی صفات ذاتیہ سے الگ نہیں ہو سکتی۔ پھر خدا کا کلام جو زندہ کلام ہے کیونکر الگ ہو سکے۔ پس کیا تم کہہ سکتے ہو کہ آفتاب وحی الٰہی اگرچہ پہلے زمانوں میں یقینی رنگ میں طلوع کرتا رہا ہے مگر اب وہ صفائی اس کو نصیب نہیں۔ گویا یقینی معرفت تک پہنچنے کا کوئی سامان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گیا اور گویا خدا کی سلطنت اور حکومت اور فیض رسانی کچھ تھوڑی مدت تک رہ کر ختم ہو چکی ہے لیکن خدا کا کلام اس کے بر خلاف گواہی دیتا ہے کیونکہ وہ دعا سکھلاتا ہے کہ ۱؂ اس دعا میں اُس انعام کی امید دلائی گئی ہے جو پہلے نبیوں اور رسولوں کو دیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ اُن تمام انعامات میں سے بزرگ تر انعام وحی یقینی کا انعام ہے کیونکہ گفتار الٰہی قائمقام دیدار الٰہی ہے کیونکہ اسی سے پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ پس اگر کسی کو اِس اُمت میں سے وحی یقینی نصیب ہی نہیں اور وہ اس بات پر جرأت ہی نہیں کر سکتا کہ اپنی وحی کو قطعی طور پر مثل انبیاء علیہم السلام کے یقینی سمجھے اور اس کی ایسی وحی ہو کہ انبیاء کی طرح اس کے ترک متابعت اور ترک عمل پر یقینی طور پر دنیا کا ضرر متصور ہوسکے، تو ایسی دعا سکھلانا محض دھوکا ہو گا کیونکہ اگر خدا کو یہ منظور ہی نہیں کہ بموجب دعا انبیاء علیہم السلام کے انعامات میں اس امت کو بھی شریک کرے تو اس نے کیوں یہ دعا سکھلائی اور ایک ناشدنی امر کیلئے دعا کرنے کی ترغیب کیوں دی۔ پس اگر یہ دعا سکھلانا یقین اور معرفت کا انعام دینے کی نیت سے نہیں بلکہ محض لفظوں سے خوش کرنا ہے پس اسی سے فیصلہ ہو گیا کہ یہ امت اپنے نصیبوں میں سب اُمتوں سے گری ہوئی ہے اور خداتعالیٰ کی مرضی نہیں ہے کہ اس امت کو یقینی چشمہ کا پانی پلا کر نجات دے بلکہ وہ ان کو شکوک اور شبہات کے ورطہ میں چھوڑ کر ہلاک کرنا چاہتا ہے لیکن یاد