اورؔ روز جزا اور بہشت اور دوزخ سب سچ ہے کیونکہ اگرچہ قصہ اور نقل کے طور پر تمام اہل اسلام اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا موجود ہے اور اس کا رسول بر حق مگر یہ ایمان کوئی یقینی بنیاد نہیں رکھتا اس لئے ایسے ضعیف ایمان کے ذریعہ سے یقینی رنگ کے آثار ظاہر ہونا اور گناہ سے سچی نفرت کرنا غیر ممکن ہے اور بوجہ اس کے کہ اسلام پر تیرہ سو برس گذر گئے تمام معجزات گزشتہ برنگ نقول اور قصص ہو گئے ہیں اور قرآن شریف اگرچہ عظیم الشان معجزہ ہے مگر ایک کامل کے وجود کو چاہتا ہے کہ جو قرآن کے اعجازی جواہر پر مطلع ہو اور وہ اس تلوار کی طرح ہے جو درحقیقت بے نظیر ہے لیکن اپنا جوہر دکھلانے میں ایک خاص دست و بازو کی محتاج ہے۔ اس پردلیل شاہد یہ آیت ہے کہ ۱ پس وہ ناپاکوں کے دلوں پر معجزہ کے طور پر اثر نہیں کر سکتا بجز اس کے کہ اس کا اثر دکھلانے والا بھی قوم میں ایک موجود ہو اور وہ وہی ہوگا جس کو یقینی طور پر نبیوں کی طرح خدا تعالیٰ کا مکالمہ اور مخاطبہ نصیب ہو گا۔ غرض تمام برکات اور یقین کے حصول کا ذریعہ خدا کا مکالمہ اورمخاطبہ ہے اور انسان کی یہ زندگی جو شکوک اور شبہات سے بھری ہوئی ہے بجز مکالمات الٰہیہ کے سر چشمہ صافیہ کے یقین تک ہرگز نہیں پہنچ سکتی مگر خداتعالیٰ کا وہ مکالمہ یقین تک پہنچاتا ہے جو یقینی اور قطعی ہو جس پر ایک ملہم قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ وہ اسی رنگ کا مکالمہ ہے جس رنگ کا مکالمہ آدم سے ہوااور پھر شیث سے ہوا اور پھر نوح سے ہوا اور پھر ابراہیم سے اور پھر اسحاق سے اور پھر اسماعیل سے اور پھر یعقوب سے ہوا اور پھر یوسف سے اور پھر چار سو برس کے بعد موسیٰ سے اور پھر یسوع بن نون سے ہوا اور پھر داؤد سے ہوا اور سلیمان سے اور الیسع نبی سے اور دانیال سے اور اسرائیلی سلسلہ کے آخر میں عیسیٰ بن مریم سے ہوا اور سب سے اتم اور اکمل طور پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔ لیکن اگر کوئی کلام یقین کے مرتبہ سے کمتر ہو تو وہ شیطانی کلام ہے نہ ربّانی۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ جب آفتاب طلوع کرتا ہے اور اپنی کرنیں زمین پر چھوڑتا ہے تو اس کی روشنی ایسی صاف دنیا پر پڑتی ہے کہ کسی دیکھنے والے کو اس کے نکلنے میں شک