کچھ نہیں مانگتے اور نہ ان کو بیعت کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں۔ صرف ہمیں یہ منظور ہے کہ پیر صاحب کے پوشیدہ جوہر اور قرآن دانی کے کمالات جس کے بھروسہ پر انہوں نے میری ردّ میں کتاب تالیف کی، لوگوں پر ظاہر ہو جائیں۔ اور شائد زلیخا کی طرح اُن کی مُنہ سے بھی3 ۱؂ نکل آئے۔ اور ان کے نادان دوست اخبار نویسوں کو بھی پتہ لگے کہ پیر صاحب کس سرمایہ کے آدمی ہیں مگر پیر صاحب دل گیر نہ ہوں۔ ہم ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ بے شک اپنی مدد کے لئے مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی عبد الجبار غزنوی اور محمد حسین بھیں وغیرہ کو بلا لیں۔ بلکہ اختیار رکھتے ہیں کہ کچھ طمع دے کر دو چار عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں۔ فریقین کی تفسیر چا ۴ ر جز سے کم نہیں ہونی چاہئے.................... اور اگر میعاد مجوزہ تک یعنی ۱۵؍دسمبر ۱۹۰۰ء سے ۲۵؍فروری ۱۹۰۱ء تک جو ستر۷۰ دن ہیں فریقین میں سے کوئی فریق تفسیر فاتحہ چھاپ کر شائع نہ کرے اور یہ دن گذر جائیں تو وہ جھوٹا سمجھا جائے گا۔ اور اس کے کاذب ہونے کے لئے کسی اَور دلیل کی حاجت نہیں رہے گی۔ والسّلام علٰی من اتبع الھدیٰ۔ المشتھر مرزا غلام احمد از قادیاں ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس قادیاں