سے باز نہیں آتے* اور ہفتہ میں کوئی نہ کوئی ایسا اشتہار پہنچ جاتا ہے جس میں پیر مہر علی شاہ کو آسمان پر چڑھایا ہوا ہوتا ہے اور میری نسبت گالیوں سے کاغذ بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اور عوام کو دھوکا پر دھوکا دے رہے ہیں۔ اور میری نسبت * منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ نے بھی اپنی کتاب عصائے موسیٰ میں پیر صاحب کی جھوٹی فتح کا ذکر کرکے جو چاہا کہا ہے۔ بات تو تب ہے کہ کوئی انسان حیا اور انصاف کی پابندی کرکے کوئی امر ثابت بھی کرے۔ ظاہر ہے کہ اگر منشی صاحب کے نزدیک پیر مہر علی شاہ صاحب علمِ قرآن اور زبان عربی سے کچھ حصہ رکھتے ہیں جیسا کہ وہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں تو اب چارجز عربی تفسیر سورۃ فاتحہ کی ایک لمبی مہلت ستر۷۰ دن میں اپنے گھر میں ہی بیٹھ کر اور دوسروں کی مدد بھی لے کر میرے مقابل پر لکھنا اُن کے لئے کیا مشکل بات ہے۔ اُن کی حمایت کرنے والے اگر ایمان سے حمایت کرتے ہیں تو اب تو اُن پر زور دیں۔ ورنہ ہماری یہ دعوت آئندہ نسلوں کے لئے بھی ایک چمکتا ہوا ثبوت ہماری طرف سے ہوگا کہ اس قدر ہم نے اس مقابلہ کے لئے کوشش کی۔پانسو ۵۰۰ روپیہ انعام دینا بھی کیا لیکن پیر صاحب اور ان کے حامیوں نے اس طرف رُخ نہ کیا۔ ظاہر ہے کہ اگر بالفرض کوئی کُشتی دو۲ پہلوانوں کی مشتبہ ہو جائے۔ تو دوسری مرتبہ کشتی کرائی جاتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک فریق تو اس دوبارہ کشتی کے لئے کھڑا ہے تا احمق انسانوں کا شبہ دُور ہو جائے اور دوسرا شخص جیتتا ہے اور میدان میں اس کے مقابل پر کھڑا نہیں ہوتا اور بیہودہ عذر پیش کرتا ہے ناظرین برائے خدا ذرا سوچو کہ کیا یہ عذر بدنیتی سے خالی ہے کہ پہلے مجھ سے منقولی بحث کرو پھر اپنے تین۳ دشمنوں کی مخالفانہ گواہی پر میری بیعت بھی کر لو اوراس بات کی پرواہ نہ کرو کہ تمہارا خدا سے وعدہ ہے کہ ایسی بحثیں میں کبھی نہیں کروں گا پھر بیعت کرنے کے بعد بالمقابل تفسیر لکھنے کی اجازت ہو سکتی ہے۔ یہ پیر صاحب کا جواب ہے جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شرط دعوت منظور کر لی تھی۔ منہ