دعویٰ قابل تسلیم نہیں بلکہ ہر ایک چیز کا قدر امتحان سے ہو سکتا ہے۔ اور امتحان کا ذریعہ مقابلہ ہے کیونکہ روشنی ظلمت سے ہی شناخت کی جاتی ہے۔ اور چونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس الہام سے مشرف فرمایا ہے کہ :۔ الرّحمٰن علّم القرآن کہ خدا نے تجھے قرآن سکھلایا اس لئے میرے لئے صدق یا کذب کے پرکھنے کے لئے یہ نشان کافی ہوگا کہ پیر ؔ مہر علی شاہ صاحب میرے مقابل پر کسی سورۃ قرآن شریف کی عربی فصیح، بلیغ میں تفسیر لکھیں۔ اگر وہ فائق اور غالب رہے تو پھر اُن کی بزرگی ماننے میں مجھ کو کچھ کلام نہیں ہوگا۔ پس مَیں نے اس امر کو قرار دے کر اُن کی دعوت میں اشتہار شائع کیا جس میں سراسر نیک نیتی سے کام لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے جواب میں جس چال کو انہوں نے اختیار کیا ہے اس سے صاف ثابت ہو گیا کہ اُن کو قرآن شریف سے کچھ بھی مناسبت نہیں اور نہ علم میں کچھ دخل ہے۔ یعنی انہوں نے صاف گریز کی راہ اختیار کی اور جیسا کہ عام چال بازوں کا دستور ہوتا ہے یہ اشتہار شائع کیا کہ اوّل مجھ سے حدیث اور قرآن سے اپنے عقائد میں فیصلہ کر لیں پھر اگر مولوی محمد حسین اور اُن کے دوسرے دو رفیق کہہ دیں کہ مہر علی شاہ کے عقائد صحیح ہیں تو بلا توقف اسی وقت میری بیعت کر لیں۔ پھر بیعت کے بعد عربی تفسیر لکھنے کی بھی اجازت دی جائے گی مجھے اس جواب کو پڑھ کر بلا اختیار اُن کی حالت پر رونا آیا۔ اور اُن کی حق طلبی کی نسبت جوامیدیں تھیں سب خاک میں مل گئیں۔ اب اس اشتہار لکھنے کا یہ موجب نہیں ہے کہ ہمیں ان کی ذات پر کچھ امید باقی ہے۔ بلکہ یہ موجب ہے کہ باوصف اس کے کہ اس معاملہ کو دو مہینے سے زیادہ عرصہ گذر گیا مگر اب تک اُن کے متعلّقین سبّ و شتم