خدا کے کلام میں کسی کو کہاجاتا ہے کہ وہ ضرور مر جائے گا تو وہاں بھی یہ لفظ بول کر ماضی سے استقبال کا کام لیتے ہیں۔ یعنی اگرچہ وہ موت ابھی وقوع میں نہیں آئی تا ہم اس کا واقع ہونا ایسا یقینی ہے کہ گویا وہ مر گیا ہے یا مرا ہوا ہے۔ اور اس قسم کے محاورے ہر زبان میں ہوتے ہیں۔ عبرانی بائبل میں اور بھی کئی جگہ اس طرح سے کہا گیا ہے۔ مثلاً ۲۔ سلاطین۔ باب ۲۰۔ آیت ۱۔ انہی دنوں میں حزقیاہ کو موت کی بیماری ہوئی۔ تب اموص کا بیٹا یسعیا اس پاس آیا اور اسے کہا:۔ خداوند یوں فرماتا ہے۔ تو اپنے گھر کی بابت وصیت کر (۔کی میت اتاہ ولوتحی یاہ) کیونکہ تُو مر جائے گا اور نہیں جیئے گا۔ دیکھو اِسی لفظ میت کے معنے جو کہ استثناء ۱۸:۱۸ میں آیا ہے۔ یہاں مر جائے گا کے معنے کئے گئے ہیں۔ خروج باب۱۱۔ آیت ۵ (۔ ومیت کول بکور بارض مصرائم) اور زمین مصرمیں سارے پلوٹھے مر جائیں گے۔ ۱۔سلاطین ۱۴:۱۲ ۔ اور جب تیرا قدم شہر میں داخل ہوگا تو (میت ھیالید) وہ بچہ مر جائیگا۔ یرمیاہ ۲۸:۱۵۔ تب یرمیاہ نبی نے حننیاہ نبی سے کہا کہ اے حننیاہ اب سُن خداوند نے تجھے نہیں بھیجا پر تو اس قوم کو جھوٹ کہہ کہہ کے امید وار کرتا ہے۔ اس لئے خداوند یوں کہتا ہے کہ دیکھ مَیں تجھے روئے زمین پر ؔ سے خارج کروں گا (۔ ھشاناہ اقاہ میت) تو اِسی سال میں مرے گا.... چنانچہ اسی سال ساتویں مہینے حننیا ہ نبی مر گیا۔