دشمن ہو گئے مگر ہر ایک خدا کا فرستادہ جو بھیجا جاتا ہے ضرور ایک ابتلا ساتھ لاتا ہے۔ حضرت عیسیٰ جب آئے تو بد قسمت یہودیوں کو یہ ابتلا پیش آگیا کہ ایلیا دوبارہ آسمان سے نازل نہیں ہوا۔ اور ضرور تھا کہ پہلے ایلیا آسمان سے نازل ہوتا تب مسیح آتا جیسا کہ ملا کی نبی کی کتاب میں لکھا ہے۔ اور جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو اہل کتاب کو یہ ابتلا پیش آیا کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے نہیں آیا۔ اب کیا ضرور نہ تھا کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت بھی کوئی ابتلا ہو۔ اور اگر مسیح موعود تمام باتیں اسلام کے تہتّر فرقہ کی مان لیتا تو پھر کن معنوں سے اس کا نام حَکَم رکھا جاتا۔ کیا وہ باتوں کو ماننے آیا تھا یا منوانے آیا تھا؟ تو اس صورت میں اس کا آنا بھی بے سود تھا۔ سو اے قوم! تم ضد نہ کرو۔ ہزاروں باتیں ہوتی ہیں جو قبل از وقت سمجھ نہیں آتیں۔ ایلیا کے دوبارہ آنے کی اصل حقیقت حضرت مسیح سےؔ پہلے کوئی نبی سمجھا نہ سکا تا یہود حضرت مسیح کے ماننے کے لئے طیّار ہو جاتے۔ ایسا ہی اسرائیلی خاندان میں سے خاتم الانبیاء آنے کا خیال جو یہود کے دل میں مرکوز تھا اس خیال کو بھی کوئی نبی پہلے نبیوں میں سے صفائی کے ساتھ دُور نہ کر سکا۔ اِسی طرح مسیح موعود کا مسئلہ بھی مخفی چلا آیا تا سنت اللہ کے موافق اس میں بھی ابتلا ہو۔ بہتر تھا کہ میرے مخالف اگر ان کو ماننے کی توفیق نہیں دی گئی تھی تو بارے کچھ مدّت زبان بند رکھ کر اور کف لسان اختیار کرکے میرے انجام کو دیکھتے اب جس قدر عوام نے بھی گالیاں دیں یہ سب گناہ مولویوں کی گردن پر ہے۔ افسوس یہ لوگ فراست سے بھی کام نہیں لیتے۔ مَیں ایک دائم المرض آدمی ہوں اور وہ دو زرد چادریں جن کے بارے میں حدیثوں میں ذکر ہے کہ ان دو چادروں میں مسیح نازل ہوگا وہ دو۲ زرد چادریں میرے شامل حال ہیں جن کی تعبیر علم تعبیر الرؤیا کے رُو سے دو بیماریاں ہیں۔ سو ایک چادر میرے اوپر کے حصہ میں ہے کہ ہمیشہ سردرد اور