کہ وہ یہ بے باکی اور بے ادبی کا کلمہ منہ پر لا سکتا کہ یہ پیمانہ وحی نبوت یعنی تیئیس برس جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا یہ کاذب کو بھی مل سکتا ہے۔ پھر جس حالت میں قرآن شریف نے صاف لفظوں میں فرما دیا کہ اگر یہ نبی کاذب ہوتا تو یہ پیمانہ عمر وحی پانے کا اس کو عطا نہ ہوتا۔ اور توریت نے بھی یہی گواہی دی اور انجیل نے بھی یہی، تو پھر کیسا اسلام اور کیسی مسلمانی ہے کہ ان تمام گواہیوں کو صرف میرے بغض کے لئے ایک ردّی چیز کی طرح پھینک دیا گیا اور خدا کے پاک قول کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا۔ مَیں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ کیسی ایمانداری ہے کہ ہر ایک ثبوت جو پیش کیا جاتا ہے اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور وہ اعتراضات بار بار پیش کرتے ہیں جن کا صدہا مرتبہ جواب دیا گیا ہے اور جو صرف میرے پر ہی نہیں ہیں بلکہ اگر اعتراض ایسی باتوں کا ہی نام ہے جو میری نسبت بطور نکتہ چینی ان کے منہ سے نکلتے ہیں تو اُن میں تمام نبی شریک ہیں۔ میری نسبت جو کچھ کہا جاتا ہے پہلے سب کچھ کہا گیا ہے۔ ہائے! یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور سچا فلاں آدمی ہے۔ ہائے یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ اگر مہدی معہوؔ د موجود نہیں تھا تو کس کے لئے آسمان نے خسوف کسوف کا معجزہ دکھلایا۔ افسوس یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ دعویٰ بے وقت نہیں۔ اسلام اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر فریاد کر رہا تھا کہ میں مظلوم ہوں اور اب وقت ہے کہ آسمان سے میری نصرت ہو۔ تیرھویں صدی میں ہی دل بول اٹھے تھے کہ چودھویں صدی میں ضرور خدا کی نصرت اور مدد آئے گی۔ بہت سے لوگ قبروں میں جا سوئے جو رو رو کر اس صدی کی انتظار کرتے تھے۔ اور جب خدا کی طرف سے ایک شخص بھیجا گیا تو محض اس خیال سے کہ اس نے موجودہ مولویوں کی ساری باتیں تسلیم نہیں کیں اُس کے