کامرشد مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی اور پِیر صَاحِبُ العَلَم ہیں۔ اب کس قدر اندھیر کی بات ہے کہ مرشد خدا سے الہام پاکر میری تصدیق کرتا ہے۔ اور مرید مجھے کافر ٹھہراتا ہے۔ کیا یہ سخت فتنہ نہیں ہے؟ کیا ضروری نہیں کہ اس فتنہ کو کسی تدبیر سے درمیان سے اٹھایا جائے؟ اور وہ یہ طریق ہے کہ اوّل ہم اس بزرگ کو مخاطب کرتے ہیں جسؔ نے اپنے بزرگ مرشد کی مخالفت کی ہے یعنی منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کو۔ اور ان کے لئے دو طور پر طریق تصفیہ قرار دیتے ہیں۔ اوّل یہ کہ ایک مجلس میں ان ہر دو گواہوں سے میری حاضری میں یا میرے کسی وکیل کی حاضری میں مولوی عبداللہ صاحب کی روایت کو دریافت کر لیں اور استاد کی عزت کا لحاظ کرکے اس کی گواہی کو قبول کریں۔ اور پھر اس کے بعد اپنی کتاب عصائے موسیٰ کو مع اس کی تمام نکتہ چینیوں کے کسی ردّی میں پھینک دیں۔* کیونکہ
جبکہ منشی الٰہی بخش صاحب کو الہام ہو چکے ہیں کہ مولوی عبد اللہ صاحب کی مخالفت ضلالت ہے تو ان کو چاہئے کہ اپنے اس الہام سے ڈریں اور لا تکونوا اوّل کافربہٖ کا مصداق نہ بنیں۔ اور حافظ