کہتے ہیں کہ مہر علی شاہ صاحب لاہور میں آئے اُن سے مقابلہ نہ کیا۔ جن دلوں پر خدا *** کرے مَیں اُن کا کیا علاج کروں۔ میرا دل فیصلہ کے لئے دردمند ہے ؔ ۔ ایک زمانہ گذر گیا۔ میری یہ خواہش اب تک پوری نہیں ہوئی کہ ان لوگوں میں سے کوئی راستی اور ایمانداری اور نیک نیتی سے فیصلہ کرنا چاہے مگر افسوس کہ یہ لوگ صدق دل سے میدان میں نہیں آتے۔ خدا فیصلہ کے لئے طیّار ہے اور اُس اونٹنی کی طرح جو بچہ جننے کے لئے دُم اُٹھاتی ہے زمانہ خود فیصلہ کا تقاضا کر رہا ہے۔ کاش اِن میں سے کوئی فیصلہ کا طالب ہو۔ کاش ان میں سے کوئی رشید ہو۔ مَیں بصیرت سے دعوت کرتا ہوں اور یہ لوگ ظن پر بھروسہ کرکے میرا انکار کر رہے ہیں ان کی نکتہ چینیاں بھی اسی غرض سے ہیں کہ کسی جگہ ہاتھ پڑ جائے۔ اے نادان قوم! یہ سِلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے۔ تم خدا سے مت لڑو۔ تم اس کو نابود نہیں کر سکتے۔ اس کا ہمیشہ بول بالا ہے۔ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ بجز ان چند حدیثوں کے جو تہتر فرقوں نے بوٹی بوٹی کرکے باہم تقسیم کر رکھی ہیں رؤیت حق اور یقین کہاں ہے؟ اور ایک دوسرے کے مکذّب ہو۔ کیا ضرور نہ تھا کہ خدا کا حَکَم یعنی فیصلہ کرنے والا تم میں نازل ہو کر تمہاری حدیثوں کے انبار میں سے کچھ لیتا اور کچھ ردّ کر دیتا۔ سو یہی اس وقت ہوا۔ وہ شخص حَکَم کس بات کا ہے جو تمہاری سب باتیں مانتا جائے اور کوئی بات ردّ نہ کرے۔ اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو اور اس سِلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کیلئے پیدا ہوا۔ اور یقیناًسمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری ایسی جلدی ہلاک ہو جاتا کہ اب اُس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ ملتا۔ سو اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو۔ کم سے کم یہ تو سوچو کہ شائد غلطی ہو گئی ہو اور شائد یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو۔ اور کیوں مجھ پر یہ الزام لگاتے ہو کہ براہین احمدیہ کا روپیہ کھا گیا ہے۔* اگر میرے پر تمہارا کچھ حق ہے * منشی الٰہی بخش صاحب نے جھوٹے الزاموں اور بہتان اور خلاف واقعہ کی نجاست سے