جس کا ایمانًا تم مواخذہ کر سکتے ہو یا اب تک مَیں نے تمہاؔ را کوئی قرضہ ادا نہیں کیا۔ یا تم نے اپنا حق مانگا اور میری طرف سے انکار ہوا تو ثبوت پیش کرکے وہ مطالبہ مجھ سے کرو۔ مثلاً اگر مَیں نے براہین احمدیہ کی قیمت کا روپیہ تم اپنی کتاب عصائے موسیٰ کو ایسا بھر دیا ہے جیسا کہ ایک نالی اور بدر رو گندی کیچڑ سے بھری جاتی ہے یا جیسا کہ سنڈاس پاخانہ سے۔ اور خدا سے بے خوف ہو کر میری عزت پر افتراکے طور پر سخت دشمنوں کی طرح حملہ کیا ہے وہ یقیناًسمجھ لیں کہ یہ کام انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ اور جو کچھ انہوں نے لکھا ہے ان گالیوں سے زیادہ نہیں جو حضرت موسیٰ کو دی گئیں اور حضرت مسیح کو دی گئیں۔ اور ہمارے سید صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں۔ افسوس انہوں نے آیت3 ۱؂ کے ویل کے وعید سے کچھ بھی اندیشہ نہیں کیا۔ اور نہ انہوں نے آیت 3 ۲ ؂ کی بھی کچھ بھی پروا کی۔ وہ بار بار میری نسبت لکھتے ہیں کہ مَیں نے ان کو تسلی دے دی کہ مَیں آپ کے افترا کی وجہ سے کسی انسانی عدالت میں آپ پر نالش نہیں کروں گا۔ سو مَیں کہتا ہوں کہ مَیں نہ صرف انسانی عدالت میں نالش (نہ)* کروں گا بلکہ مَیں خدا کی عدالت میں بھی نالش نہیں کرتا۔ لیکن چونکہ آپ نے محض جھوٹے اور قابل شرم الزام میرے پر لگائے ہیں اور مجھے ناکردہ گناہ دُکھ دیا ہے اس لئے میں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ مَیں اس وقت سے پہلے مروں جب تک کہ میرا قادر خدا ان جھوٹے الزاموں سے مجھے بری کرکے آپ کا کاذب ہونا ثابت نہ کرے۔ الا ان لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ اسی کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر مجھ کو ۶؍دسمبر۱۹۰۰ء روز پنجشنبہ کو یہ الہام ہوا ۔ ’’بر مقام فلک شدہ یارب گر امیدے دہم مدار عجب‘‘ بعد ۱۱۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مَیں نہیں جانتا کہ گیاراں دن ہیں یا گیاراں ہفتہ یا گیاراں مہینے یا گیاراں سال مگر بہر حال ایک نشان میری بریّت کے لئے اس مدت میں ظاہر ہوگا جو آپ کو سخت شرمندہ * ایڈیشن اول میں نہ لکھنے سے رہ گیا ہے(ناشر) ۱؂ الھمزۃ : ۲ ۲؂ بنی اسرائیل :