نہ لیتے۔ کیا ۔مَیں اپنے عہد کو توڑؔ سکتا تھا؟ پھر اگر مہر علی شاہ کا دل فاسد نہیں تھا تو اس نے ایسی بحث کی مجھ سے کیوں درخواست کی جس کو مَیں عہد مستحکم کے ساتھ ترک کر بیٹھاتھا اور اس درخواست میں لوگوں کو یہ دھوکا دیا کہ گویا وہ میری دعوت کو قبول کرتا ہے۔ دیکھو یہ کیسے عجیب مکر سے کام لیا اور اپنے اشتہار میں یہ لکھا کہ اوّل منقولی بحث کرو۔ اور اگر شیخ محمد حسین بٹالوی اور اس کے دورفیق قسم کھا کر کہہ دیں کہ عقائد صحیح وہی ہیں جو مہر علی شاہ پیش کرتا ہے تو بلا توقف اسی مجلس میں میری بیعت کر لو ۔اب دیکھو دنیا میں اس سے زیادہ بھی کوئی فریب ہوتا ہے؟ مَیں نے تو اُن کو نشان دیکھنے اور نشان دکھلانے کے لئے بلایا اور یہ کہا کہ بطور اعجاز دونوں فریق قرآن شریف کی کسی سورت کی عربی میں تفسیر لکھیں۔ اور جس کی تفسیر اور عربی عبارت فصاحت اور بلاغت کے رو سے نشان کی حد تک پہنچی ہوئی ثابت ہووہی موء ید من اللہ سمجھا جائے اور صاف لکھ دیا کہ کوئی منقولی بحثیں نہیں ہوں گی صرف نشان دیکھنے اور دکھلانے کے لئے یہ مقابلہ ہوگا لیکن پیر صاحب نے میری اِس تمام دعوت کو کالعدم کرکے پھر منقولی بحث کی درخواست کر دی۔ اور اُسی کو مدارفیصلہ ٹھہرا دیا اور لکھ دیا کہ ہم نے آپ کی دعوت منظور کر لی صرف ایک شرط زیادہ لگا دی۔ اے مکّار! خدا تجھ سے حساب لے۔ تونے میری شرط کا کیا منظور کیا جبکہ تیری طرف سے منقولی بحث پر بیعت کا مدار ہو گیا جس کو مَیں بوجہ مشتہر کردہ عہد کے کسی طرح منظور نہیں کر سکتا تھا تو میری دعوت کیا قبول کی گئی؟ اور بیعت کے بعد اس پر عمل کرنے کا کونسا موقع رہ گیا۔ کیا یہ مکر اِس قسم کا ہے کہ لوگوں کو سمجھ نہیں آسکتا تھا۔ بے شک سمجھ آیا مگر دانستہ سچائی کا خون کر دیا۔ غرض ان لوگوں کا یہ ایمان ہے۔ اس قدر ظلم کرکے پھر اپنے اشتہاروں میں ہزاروں گالیاں دیتے ہیں۔ گویا مرنا نہیں اور کیسی خوشی سے