جو مہر علی گولڑوی نے میرے مقابل پر کی۔ کیا مَیں نے اس کو اِس لئے بلایا تھا کہ مَیں اُس سے ایک منقولی بحث کرکے بیعت کر لوں۔ جس حالت میں مَیں بار بار کہتا ہوں کہ خدا نے مجھے مسیح موعود مقرر کرکے بھیجا ہے اور مجھے بتلا دیا ہے کہ فلاں حدیث سچی ہے اور فلاں جھوٹی ہے اور قرآن کے صحیح معنوں سے مجھے اطلاع بخشی ہے تو پھر مَیں کس بات میں اور کس غرض کے لئے ان لوگوں سے منقولی بحث کروں جبکہ مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآن کریم پر تو کیا انہیں مجھ سے یہ توقع ہو سکتی ہے کہ مَیں اُن کے ظنیات بلکہ موضوعات کے ذخیرہ کو سُن کر اپنے یقین کو چھوڑ دوں جس کی حق الیقین پر بنا ہے اور وہ لوگ بھی اپنی ضد کو چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ میرے مقابل پر جھوٹی کتابیں شائع کر چکے ہیں اور اب ان کو رجوع اشدّ من الموت ہے تو پھر ایسی حالت میں بحث سے کونسا فائدہ مترتب ہو سکتا تھا اور جس حالت میں مَیں نے اشتہار دے دیا کہ آئندہ کسی مولوی وغیرہ سے منقولی بحث نہیں کروں گا۔ تو انصاف اور نیک نیتی کا تقاضا یہ تھا کہ ان منقولی بحثوں کا میرے سامنے نام بھی کہ پہلے آپ اسلام سے مرتد ہو جائیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد بھی حدیث ذھب وھلی کے رو سے غلط نکلا۔ لہٰذا اس غلطی کی وجہ سے آنحضرت علیہ السلام بھی آپکے اصول کے رو سے کاذب ٹھہرے۔ پہلے اس سوال کا جواب دو پھر میرے پر اعتراض کرو۔ اسی طرح احمد بیگ کے داماد کے متعلق بھی شرطی پیشگوئی ہے اگر کچھ ایمان باقی ہے تو کیوں شرط کی انتظار نہیں کرتے اور یہ کیسی دیانت تھی کہ ساری کتاب میں لیکھرام کے متعلق کی پیشگوئی کا ذکر بھی نہیں کیا۔ کیا وہ پیشگوئی پوری ہوئی یا نہیں؟ کیا احمد بیگ پیشگوئی کے مطابق میعاد کے اندر مر گیایا نہیں؟ ابھی کل کی بات ہے کہ آپ کے معزز دوست ڈپٹی فتح علی شاہ صاحب نے میرے استفسار پر بڑے یقین سے گواہی دی تھی کہ نہایت صفائی سے لیکھرام کے متعلق کی پیشگوئی پوری ہوگئی۔ اب اسی جماعت میں سے ہو کر آپ تکذیب کرنے لگے۔منہ