دلیل نہیں ہے کہ ان لوگوں کے دل مسخ ہو گئے ہیں۔ نہ خدا کا ڈر ہے نہ روز حساب کا کچھ خوف ہے۔ ان لوگوں کے دل جرأت اور شوخی اور گستاخی سے بھر گئے ہیں۔ گویا مرنا نہیں ہے۔ اگر ایمان اور حیا سے کام لیتے تو اُس کارروائی پر نفرین کرتے
ویلؔ یعنی جہنم کا وعدہ ہے۔ افسوس کہ منشی صاحب نے ان بیہودہ نکتہ چینیوں کے پہلے اس آیت پر غور نہیں کی مگر اچھا ہوا کہ انہوں نے باقرار ان کے اس بدگوئی کا خدا تعالیٰ سے دست بدست جواب بھی پا لیا یعنی بار ہا ان کو وہ الہام ہوا جو کتاب عصائے موسیٰ میں درج ہے یعنی انّی مھین لمن اراد اھانتک۔ یعنی میں تجھے اس شخص کی حمایت میں ذلیل کروں گا جس کی نسبت تیرا خیال ہے جو وہ مجھے ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ یعنی یہ عاجز۔ اب دیکھو کہ یہ کیسا چمکتا ہوا نشان ہے جس نے آیت3 3 ۱ ۱ کی بلاتوقف تصدیق کر دی۔ دنیا کے تمام مولویوں سے پوچھ لو کہ اس الہام کے یہی معنے ہیں اور لفظ مھینٌ قائم مقام مھینک کا ہے۔ اور یہ ایک بڑانشان ہے۔ اگر منشی الٰہی بخش صاحب خدا سے ڈریں۔ اہانت کیلئے منشی صاحب کو دو۲ ہی راہ سوجھی ہیں (۱) ایک یہ کہ جس قدر کتابوں کا وعدہ کیا تھا وہ سب شائع نہیں کیں۔ یہ خیال نہ کیا کہ اگر کچھ دیر ہو گئی تو قرآن شریف بھی تو ۲۳ برس میں ختم ہوا۔ آپ کو بد نیتی پر کیونکر علم ہو گیا۔ انسان خدا کی قضاء وقدر کے نیچے ہے و انّما الاعمال بالنیّات۔ جبکہ یہ بھی بار بار اشتہار دیا گیا کہ جس شتاب کار نے کچھ دیا ہے وہ واپس لے لے تو پھر اعتراض کی کیا گنجائش تھی بجز خبث نفس۔ (۲) دوسرا یہ اعتراض ہے کہ پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں۔ اس کا جواب تو یہی ہے کہ لعنۃاللّٰہ علی الکذبین ۔ سو۱۰۰ سے زیادہ پیشگوئی پوری ہو چکی۔ ہزاروں انسان گواہ ہیں۔ اور آتھم کی پیشگوئی شرطی تھی اپنی شرط کے موافق پوری ہوئی۔ بھلا فرمایئے کیا وہ الہام شرطی نہیں تھا۔ سچ سے انکار کرنا لعنتیوں کا کام ہے۔ اگر اجتہاد سے ہمارا یہ بھی خیال ہو کہ آتھم میعاد کے اندر مرے گا تو یہ اعتراض صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے