کی عادت ایسے نکتہ چینوں کے جواب میں یہی ہے کہ جو لوگ اس کی طرف سے آتے ہیں ایک عجیب طور پر ان کی تائید کرتا ہے اور متواتر آسمانی نشان دکھلاتا ہے یہاں تک کہ دانشمند لوگوں کو اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر یہ شخص مفتری اور آلودہ دامن ہوتا تو اس قدر اس کی تائید کیوں ہوتی کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا ایک مفتری سے ایسا پیار کرے جیسا کہ وہ اپنے صادق دوستوں سے کرتا رہا ہے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے۔3۔33 ۱؂۔ یعنی ہم نے ایک فتح عظیم جو ہماری طرف سے ایک عظیم الشان نشان ہے تجھ کو عطا کی ہے۔ تاہم وہ تمام گناہ جو تیری طرف منسوب کئے جاتے ہیں اُن پر اس فتح نمایاں کی نورانی چادر ڈال کر نکتہ چینوں کا خطاکار ہونا ثابت کروں۔ غرض قدیم سے اور جب سے کہ سلسلۂ انبیاء علیہم السلام شروع ہوا ہے سنت اللہ یہی ہے کہ وہ ہزاروں نکتہ چینیوں کا ایک ہی جواب دے دیتا ہے یعنی تائیدی نشانوں سے مقرب ہونا ثابت کر دیتا ہے۔ تب جیسے نور کے نکلنے اور آفتاب کے طلوع ہونے سے یکلخت تاریکی دُور ہو جاتی ہے ایسا ہی تمام اعتراضات پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ سو مَیں دیکھتا ہوں کہ میری طرف سے بھی خدا یہی جواب دے رہاؔ ہے۔ اگر مَیں سچ مچ مفتری اور بدکار اور خائن اور دروغگو تھا تو پھر میرے مقابلہ سے ان لوگوں کی جان کیوں نکلتی ہے۔ بات سہل تھی۔* کسی آسمانی نشان کے ذریعہ سے میرا اور اپنا فیصلہ خدا پر مَیں اس مقام تک پہنچا تھا کہ منشی الٰہی بخش اکونٹنٹ کی کتاب عصائے موسیٰ مجھ کو ملی جس میں میری ذاتیات کی نسبت محض سوء ظن سے اور خدا کی بعض سچی اور پاک پیشگوئیوں پر سراسر شتاب کاری سے حملے کئے گئے ہیں۔ وہ کتاب جب مَیں نے ہاتھ سے چھوڑی تو