مامورین کو ملتے ہیں جو سیاہ باطن ؔ اور دل کے اندھے ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت بھی یہی اعتراض اکثر خبیث فطرت لوگوں کے ہیں کہ اُس نے اپنی قوم کے لوگوں کو رغبت دی کہ تا وہ مصریوں کے سونے چاندی کے برتن اور زیور اور قیمتی کپڑے عاریتاً مانگیں اور محض دروغگوئی کی راہ سے کہیں کہ ہم عبادت کے لئے جاتے ہیں چند روز تک یہ تمہاری چیزیں واپس لاکر دے دیں گے اور دل میں دغا تھا۔ آخر عہد شکنی کی اور جھوٹ بولا اور بیگانہ مال اپنے قبضہ میں لاکر کنعان کی طرف بھاگ گئے۔ اور درحقیقت یہ تمام اعتراضات ایسے ہیں کہ اگر معقولی طور پر ان کا جواب دیا جائے تو بہت سے احمق اور پست فطرت ان جوابات سے تسلّی نہیں پا سکتے اس لئے خدا تعالیٰ فصیح بلیغ عربی میں لکھوں گا۔ انہیں اجازت ہے کہ وہ اس تفسیرمیں تمام دنیا کے علماء سے مدد لے لیں۔ عرب کے بلغاء فصحاء بلالیں۔ لاہور اور دیگر بلاد کے عربی دان پروفیسروں کو بھیؔ مدد کے لئے طلب کر لیں۔ ۱۵؍دسمبر۱۹۰۰ء سے ستر۷۰ دن تک اس کام کے لئے ہم دونوں کو مہلت ہے ایک دن بھی زیادہ نہیں ہوگا۔ اگر بالمقابل تفسیر لکھنے کے بعد عرب کے تین نامی ادیب ان کی تفسیر کو جامع لوازم بلاغت و فصاحت قرار دیں اور معارف سے پُر خیال کریں تو مَیں پانسو رو ۵۰۰ پیہ نقد ان کو دوں گا۔ اور تمام اپنی کتابیں جلا دوں گا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا۔ اور اگر قضیہ برعکس نکلا یا اس مدت تک یعنی ستر۷۰ روز تک وہ کچھ بھی لکھ نہ سکے تو مجھے ایسے لوگوں سے بیعت لینے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ روپیہ کی خواہش صرف یہی دکھلاؤں گا کہ کیسے انہوں نے پیر کہلاکر قابل شرم جھوٹ بولا اور کیسے سراسر ظلم اور سفلہ پن اور خیانت سے بعض اخبار والوں نے ان کی اپنی اخباروں میں حمایت کی۔ مَیں اس کام کو انشاء اللہ تحفہ گولڑویہ کی تکمیل کے بعد شروع کر دوں گااور جو شخص ہم میں سے صادق ہے وہ ہر گز شرمندہ نہیں ہوگا۔ اب وقت ہے کہ اخباروں والے جنہوں نے بغیر دیکھے بھالے کے ان کی حمایت کی تھی ان کواس کام کیلئے اٹھاویں۔ ستر۷۰ دن میں یہ بات داخل ہے کہ فریقین کی کتابیں چھپ کر شائع ہو جائیں۔ منہ