صفت* سے شہرت دیتے ہیں کہ وہ ایک خود پرست متکبر بد خلق ہے۔ لوگوں کو گالیاں دینے والا اور اپنے مخالفین کو سبّ وشتم کرنے والا بخیل زر پرست کذّاب دجّال بے ایمان خونی ہے۔ یہ سب خطاب اُن لوگوں کی طرف سے خدا کے نبیوں اور جھوٹی فتح کا نقارہ بجا دیا اور مجھے گندی گالیاں دیں اور مجھے اس کے مقابلہ پر جاہل اور نادان قرار دیا۔ گویا مَیں اس نابغہ وقت اور سحبان زمان کے رعب کے نیچے آکر ڈر گیا ورنہ وہ حضرت تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لئے طیّار ہو گئے تھے اور اسی نیت سے لاہور تشریف لائے تھے۔ پر مَیں آپ کی جلالتِ شان اور علمی شوکت کو دیکھ کر بھاگ گیا اے آسمان جھوٹوں پر *** کر آمین۔ پیارے ناظرین کاذب کے رسوا کرنے کے لئے اسی وقت جو ۷؍دسمبر۱۹۰۰ء ؁ روز جمعہ ہے خدا نے میرے دل میں ایک بات ڈالی ہے اور مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا جہنم جھوٹوں کے لئے بھڑک رہا ہے کہ مَیں نے سخت تکذیب کو دیکھ کر خود اس فوق العادت مقابلہ کے لئے درخواست کی تھی۔ اور اگر پیر مہر علی شاہ صاحب مباحثہ منقولی اور اس کے ساتھ بیعت کی شرط پیش نہ کرتے جس سے میرا مدعا بکلّی کالعدم ہو گیا تھا تو اگر لاہور اور قادیاں میں برف کے پہاڑ بھی ہوتے اور جاڑے کے دن ہوتے تو مَیں تب بھی لاہور پہنچتا اور ان کو دکھلاتا کہؔ آسمانی نشان اس کو کہتے ہیں۔ مگر انہوں نے مباحثہ منقولی اور پھر بیعت کی شرط لگا کر اپنی جان بچائی اور اس گندے مکر کے پیش کرنے سے اپنی عزت کی پرواہ نہ کی۔ لیکن اگر پیرجی صاحب حقیقت میں فصیح عربی تفسیر پر قادر ہیں اور کوئی فریب انہوں نے نہیں کیا تو اب بھی وہی قدرت اُن میں ضرور موجود ہوگی۔ لہٰذا مَیں اُن کو خدا تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اسی میری درخواست کو اس رنگ پر پورا کر دیں کہ میرے دعاوی کی تکذیب کے متعلق فصیح بلیغ عربی میں سورۃ فاتحہ کی ایک تفسیر لکھیں جو چار ۴ جز سے کم نہ ہو اور مَیں اسی سورۃ کی تفسیر بفضل اللہ وقوتہٖ اپنے دعویٰ کے اثبات کے متعلق * سہو کتابت ہے۔ یہاں ’’صفات‘‘ ہونا چاہئے ۔ (ناشر)