اور آپ اس صفت کے مخالف عقیدہ اور خلق رکھتا ہے تو گویا تُو اس شخص سےؔ ٹھٹھا کرتا ہے کہ جو کچھ اپنے لئے پسند نہیں کرتا اس کے لئے روا رکھتا ہے۔ اور جبکہ تمہارا رب جس نے اپنی کلام کو 3 ۱ سے شروع کیا ہے زمین کی تمام خوردنی و آشامیدنی اشیاء اور فضا کی تمام ہوا اور آسمانوں کے ستاروں اور اپنے سورج اور چاند سے تمام نیک و بد کو فائدہ پہنچاتا ہے تو تمہارا فرض ہونا چاہئے کہ یہی خلق تم میں بھی ہو ورنہ تم احمد اور حامد نہیں کہلا سکتے۔ کیونکہ احمد تو اس کو کہتے ہیں کہ خدا کی بہت تعریف کرنے والا ہو۔ اور جو شخص کسی کی بہت تعریف کرتا ہے وہ اپنے لئے وہی خلق پسند کرتا ہے جو اس میں ہیں اور چاہتا ہے کہ وہ خلق اُس میں ہوں۔ پس تم کیونکر سچے احمد یا حامد ٹھہر سکتے ہو جبکہ اس خلق کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے۔ حقیقت میں احمدی بن جاؤ اور یقیناًسمجھو کہ خدا کی اصلی اخلاقی صفات چار ہی ہیں جو سورۃ فاتحہ میں مذکور ہیں۔ (۱) رب العالمین سب کا پالنے والا (۲) رحمان۔ بغیر عوض کسی خدمت کے خود بخود رحمت کرنے والا (۳) رحیم۔ کسی خدمت پر حق سے زیادہ انعام اکرام کرنے والا اور خدمت قبول کرنے والا اور ضائع نہ کرنے والا۔ (۴) اپنے بندوں کی عدالت کرنے والا۔ سو احمدوہ ہے جو ان چاروں صفتوں کو ظلی طور پر اپنے اندر جمع کرلے۔ یہی وجہ ہے کہ احمد کا نام مظہر جمال ہے اور اس کے مقابل پر محمد کا نام مظہر جلال ہے۔ وجہ یہ کہ اسم محمدمیں سرّ محبوبیت ہے کیونکہ جامع محامد ہے اور کمال درجہ کی خوبصورتی اور جامع المحامد ہونا جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے۔ لیکن اسم احمد میں سرّ عاشقیت ہے۔ کیونکہ حامدیت کو انکسار اور عشقی تذلل اور فروتنی لازم ہے۔ اسی کا نام جمالی حالت ہے اور یہ حالت فروتنی کو چاہتی ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شانِ محبوبیت بھی تھی جس کا اسم محمد مقتضی ہے۔ کیونکہ محمد ہونا یعنی جامع جمیع محامد ہونا شان محبوبیت