امتحان ہے اور وہ تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس نمونہ کے دکھلانے میں کیسے ہو۔ تم سے پہلے جلالی زندگی کا نمونہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے قابل تعریف دکھلایا اور وہ ایسا ہی وقت تھا کہ جلالی طرز کی زندگی کا نمونہ دکھلایا جاتا کیونکہ ایماندار لوگ بتوں کی تعظیم کے لئے اور مخلوق پرستی کی حمایت میں بھیڑ بکری کی طرح قتل کئے جاتے تھے اور پتھروں اور ستاروں اور عناصر اور دوسری مخلوق کو خدا کی جگہ دی تھی۔ سو وہ زمانہ بے شک جہاد کا زمانہ تھا تا جو لوگ ظلم سے تلوار اُٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں۔ سو صحابہ رضی اللہ عنہم نے تلوار اٹھانے والوں کو تلوار ہی سے خاموش کیا اور اسم محمد جو مظہر جلال اور شان محبوبیت اپنے اندر رکھتا ہے اس کی تجلّی ظاہر کرنے کے لئے خوب جوہر دکھلائے اور دین کی حمایت میں اپنے خون بہا دیئے۔ پھر بعد اس کے وہ کذاب پیدا ہوئے جو اسم محمد کا جلال ظاہر کرنے والے نہیں تھے بلکہ اکثر ان کے چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح تھے جو مجھ سے پہلے گذر گئے جو جھوٹے طور پر محمدی کہلاتے تھے اور لوگ ان کو خود غرض سمجھتے تھے۔ جیسا کہ آج کل بھی بعض سرحدی نادان اس قسم کے مولویوں کی تعلیم سے دھوکا کھا کر محمدی جلال کے ظاہر کرنے کے بہانہ سے لوٹ مار اپنا شیوہ رکھتے ہیں اور آئے دن ناحق کے خون کرتے ہیں مگر تم خوب توجہ کرکے سُن لو کہ اب اسم محمد کی تجلّی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں۔ کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہو چکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے میرا نام بیت اللہ بھی رکھا ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس قدر اس بیت اللہ کو مخالف گرانا چاہیں گے اس میں سے معارف اور آسمانی نشانوں کے خزانے نکلیں گے۔ چنانچہ مَیں دیکھتا ہوں کہ ہریک ایذاکے وقت ضرور ایک خزانہ نکلتا ہے اور اس بارے میں الہام یہ ہے۔ یکے پائے من می بوسید ومن میگفتم کہ حجرا سود منم۔ منہ