کا ان مخالفوں کو یہ بے ثبوت فقرہ سُنانا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو نہیں مانتے اور نہ قرآن شریف کو من جانب اللہ مانتے ہیں محض لغو اور طفل تسلّی سے بھی کمتر ہے۔ اور ظاہرہے کہ منکر اور معاند اس سے کیا اور کیونکر تسلّی پکڑیں گے بلکہ ان کے نزدیک تو یہ صرف ایک دعویٰ ہوگا جس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں۔ ایسا کہنا کس قدر بیہودہ خیال ہے کہ اگر فلاں گناہ میں کروں تو مارا جاؤں گو کروڑہا دوسرے لوگ ہر روز دنیا میں وہی گناہ کرتے ہیں اور مارے نہیں جاتے۔ اور کیسا یہ مکروہ عذر ہے کہ دوسرے گناہگاروں اور مفتریوں کو خدا کچھ نہیں کہتاؔ یہ سزا خاص میرے لئے ہے۔ اور عجیب تر یہ کہ ایسا کہنے والا یہ بھی تو ثبوت نہیں دیتا کہ گذشتہ تجربہ سے مجھے معلوم ہوا ہے اور لوگ دیکھ چکے ہیں کہ اس گناہ پر ضرور مجھے سزا ہوتی ہے۔ غرض خدا تعالیٰ کے حکیمانہ کلام کو جو دنیا میں اتمام حجت کے لئے نازل ہوا ہے۔ ایسے بیہودہ طور پر خیال کرناخدا تعالیٰ کی پاک کلام سے ٹھٹھا اور ہنسی ہے اور قرآن شریف میں صدہا جگہ اس بات کو پاؤ گے کہ خدا تعالیٰ مفتری علی اللہ کو ہر گز سلامت نہیں چھوڑتا اور اسی دنیا میں اس کو سزا دیتا ہے اور ہلاک کرتا ہے۔ دیکھو اللہ تعالیٰ ایک موقع میں فرماتا ہے کہ 3 ۱۔ یعنی مفتری نامراد مرے گا۔ اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے۔333 ۲ یعنی اس شخص سے ظالم تر کون ہے جو خدا پر افترا کرتا ہے یا خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے خدا کے نبیوں کے ظاہر ہونے کے وقت خدا کی کلام کی تکذیب کی خدا نے ان کو زندہ نہیں چھوڑا اور بُرے بُرے عذابوں سے ہلاک کر دیا۔ دیکھو نوح کی قوم اور عاد و ثمود اور لوط کی قوم اور فرعون اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن مکہ والے ان کا کیا انجام ہوا۔ پس جبکہ تکذیب کرنے والے اسی دنیا میں سزا پاچکے تو پھر جو شخص خدا پر