یہاں تک کہ لوگوں کے دل یقین کر گئے ہوں کہ درحقیقت خیانت اور جھوٹ کے وقت اس شخص پر بجلی کا حملہ ہوتا ہے تو اُس صورت میں یہ قول ضرور بطور دلیل استعمال ہوگا۔ کیونکہ بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ جھوٹ بولا اور بجلی گری۔ (۲) دوسری صورت یہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آوے کہ جو شخص دوکاندار ہو کر اپنی فروختنی اشیاء کے متعلق کچھ جھوٹ بولے یا کم وزن کرے یا اور کسی قسم کی خیانت کرے یا کوئی ردّی چیز بیچے تو اس پر بجلیؔ پڑا کرے۔ سو اس مثال کو زیر نظر رکھ کر ہر ایک منصف کو کہنا پڑتا ہے کہ خدائے علیم و حکیم کے مُنہ سے 33۱ کا لفظ نکلنا وہ بھی تبھی ایک برہانِ قاطع کا کام دے گا کہ جب دو صورتوں میں سے ایک صورت اس میں پائی جائے۔ (۱) اوّل یہ کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اس سے کوئی جھوٹ بولا ہو اور خدا نے کوئی سخت سزا دی ہو اور لوگوں کو بطور امور مشہودہ محسوسہ کے معلوم ہو کہ آپ اگر خدا پر افترا کریں تو آپ کو سزا ملے گی جیسا کہ پہلے بھی فلاں فلاں موقعہ پر سزا ملی لیکن اس قسم کے استدلال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک وجود کی طرف راہ نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایسا خیال کرنا بھی کفر ہے۔ (۲) دوسرے استدلال کی یہ صورت ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ عام قاعدہ ہو کہ جو شخص اُس پر افترا کرے اس کو کوئی لمبی مہلت نہ دی جائے اور جلد تر ہلاک کیا جائے۔ سو یہی استدلال اس جگہ پر صحیح ہے۔ ورنہ33 ۲ کا فقرہ ایک معترض کے نزدیک محض دھوکا دہی اور نعوذ باللہ ایک فضول گو دوکاندار کے قول کے رنگ میں ہوگا۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کے کلام کی عزت کرتے ہیں اُن کا کانشنس ہرگز اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ33 کا فقرہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا مہمل ہے جس کا کوئی بھی ثبوت نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ