ارؔ بعین نمبر۴ اربعین نمبر۳ میں گو ہم دلائل بیّنہ سے لکھ چکے ہیں کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ جو شخص خدا پر افترا کرے وہ ہلاک کیا جاتا ہے مگر تاہم پھر دوبارہ ہم عقلمندوں کو یاد دلاتے ہیں کہ حق یہی ہے جو ہم نے بیان کیا۔ خبردار ایسا نہ ہو کہ وہ ہمارے مقابل پر کسی مخالف مولوی کی بات کو مان کر ہلاکت کی راہ اختیار کر لیں۔ اور لازم ہے کہ قرآن شریف کی دلیل کو بنظر تحقیر دیکھنے سے خدا سے ڈریں۔ صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت 33 ۱؂ کو بطور لغو نہیں لکھا جس سے کوئی حجت قائم نہیں ہو سکتی۔ اور خدا تعالیٰ ہر ایک لغو کام سے پاک ہے۔ پس جس حالت میں اس حکیم نے اس آیت کو اور ایسا ہی اُس دوسری آیت کو جس کے یہ الفاظ ہیں۔ 33 ۲؂ * محل استدلال پر بیان کیا ہے تو اس سے ماننا پڑتا ہے کہ اگر کوئی شخص بطور افترا کے نبوت اور مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ نبوت کے مانند ہرگز زندگی نہیں پائے گا۔ ورنہ یہ استدلال کسی طرح صحیح نہیں ٹھہرے گا اور کوئی ذریعہ اس کے سمجھنے کا قائم نہیں ہوگا کیونکہ اگر خدا پر افترا کرکے اور جھوٹا دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا کرکے تیئیس برس تک زندگی پالے اور ہلاک نہ ہو تو بلا شبہ ایک منکر کے لئے حق پیدا ہو جائے گا * یعنی اگر یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پر کچھ جھوٹ باندھتا تو ہم اس کو زندگی اور موت سے دو چند عذاب چکھاتے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نہایت سخت عذاب سے ہلاک کرتے۔منہ