کہ تمام نیکیوں کا سرنرمی ہے (اخویم مولوی عبد الکریم صاحب نے اپنی بیوی سے کسی قدر زبانی سختی کا برتاؤ کیا تھا اس پر حکم ہوا کہ اس قدر سخت گوئی نہیں چاہئے۔ حتی المقدور پہلا فرض مومن کا ہر ایک کے ساتھ نرمی اور حسن اخلاق ہے اور بعض اوقات تلخ الفاظ کا استعمال بطور تلخ دوا کے جائز ہے اما بحکم ضرورت و بقدر ضرورت نہ یہ کہ سخت گوئی طبیعت پر غالب آجائے) خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا۔ اگر مسیح ناصری کی طرف دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس جگہ اس سے برکات کم نہیں ہیں۔ اور مجھے آگ سے مت ڈراؤ کیونکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے (یہ فقرہ بطور حکایت میری طرف سے خدا تعالیٰ نے بیان فرمایاہے) اور پھر فرمایا۔ لوگ آئے اور دعویٰ کر بیٹھے۔ شیر خدا نے ان کو پکڑا۔ شیر خدا نے فتح پائی۔ اور پھر فرمایا بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید وپائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔* پاک محمد مصطفےٰ نبیوں کا سردار۔ وروشن شد نشانہائے من۔ بڑا مبارک وہ دن ہوگا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیالیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ آمین۔
* اس فقرہ سے مراد کہ محمدیوں کا پَیر اُونچے منار پر جاپڑا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی پیشگوئیاں جو آخر الزمان کے مسیح موعود کیلئے تھیں جس کی نسبت یہود کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا اور عیسائیوں کا خیال تھا کہ ہم میں سے پیدا ہوگا مگر وہ مسلمانوں میں سے پیدا ہوا۔ اس لئے بلند مینار عزّت کا محمدیوں کے حصّہ میں آیااور اس جگہ محمدی کہا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اب تک صرف ظاہری قوت اور شوکتِ اسلام دیکھ رہے تھے جس کا اسم محمدؐ مظہر ہے اب وہ لوگ بکثرت آسمانی نشان پائیں گے جو اسم احمدؐ کے مظہر کو لازم حال ہے کیونکہ اسم احمدؐ انکسار اور فروتنی اور کمال درجہ کی محویّت کو چاہتا ہے جو لازم حال حقیقت احمدیّت اور حامدیّت اور عاشقیّت اور محبیّت ہے اور حامدیّت اور عاشقیّت کے لازم حال صدو رِآیات تائیدیہ ہے۔ منہ