دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے۔* (ایک وہ ہاتھ جس کے ساتھ تکفیر نامہ کو پکڑا ۔اور دوسرا وہ ہاتھ جس کے ساتھ مُہر لگائی یا تکفیر نامہ لکھا) اس کو نہیں چاہئے تھا کہ اس کام میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے۔ اور جوتجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے جب وہ ہامان تکفیر نامہ پر مُہر لگادے گا تو بڑا فتنہ برپا ہوگا پس تو صبر کر جیسا کہ اولوالعزم نبیوں نے صبر کیا (یہ اشارہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ہے کہ اُن پر بھی یہود کے پلید طبع مولویوں نے کفر کا فتویٰ لکھا تھا اور اس الہام میں یہ اشارہ ہے کہ یہ تکفیر اس لئے ہوگی کہ تا اس امر میں بھی حضرت عیسیٰ سے مشابہت پیدا ہو جائے۔ اور اس الہام میں خدا تعالیٰ نے استفتاء لکھنے والے کا نام فرعون رکھا
* اِس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے اس لئے وہ اس لائق نہیں ہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔ کیا زندہ مردہ کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متردّد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو۔ اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ امامکم منکم یعنی جب مسیح نازل ہو گا تو تمہیں دوسرے فرقوں کو جو دعویٰ اسلام کرتے ہیں بکلّی ترک کرنا پڑے گا اور تمہارا امام تم میں سے ہوگاپس تم ایسا ہی کروکیا تم چاہتے ہو کہ خدا کا الزام تمہارے سر پر ہو۔ اور تمہارے عمل حبط ہو جائیں اور تمہیں کچھ خبر نہ ہو جو شخص مجھے دل سے قبول کرتا ہے وہ دل سے اطاعت بھی کرتا ہے اور ہریک حال میں مجھے حَکَم ٹھہراتا ہے اور ہریک تنازع کا مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے۔ مگر جو شخص مجھے دل سے قبول نہیں کرتا اس میں تم نخوت اور خود پسندی اور خود اختیاری پاؤگے پس جانو کہ وہ مجھ میں سے نہیں ہے کیونکہ وہ میری باتوں کو جو مجھے خدا سے ملی ہیں عزت سے نہیں دیکھتا اس لئے آسمان پر اس کی عزت نہیں۔منہ