وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ حافظ صاحب بھی بار بار اِن دونوں قصوں کو بیان کرتے تھے۔ اور ہنوز وہ ایسےؔ پیر فرتوت نہیں ہوئے تا یہ خیال کیا جائے کہ پیرانہ سالی کے تقاضا سے قوت حافظہ جاتی رہی اور آٹھ سال سے زیادہ مدت ہو گئی جب مَیں حافظ صاحب کی زبانی مولوی عبد اللہ صاحب کے مذکورہ بالا کشف کو ازالہ اوہام میں شائع کر چکا ہوں۔ کیا کوئی عقلمند مان سکتا ہے کہ مَیں ایک جھوٹی بات اپنی طرف سے لکھ دیتا اور حافظ صاحب اس کتاب کو پڑھ کر پھر خاموش رہتے۔ کچھ عقل و فکر میں نہیں آتا کہ حافظ صاحب کو کیا ہو گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مصلحت سے عمداً گواہی کو چھپاتے ہیں اور نیک نیتی سے ارادہ رکھتے ہیں کہ کسی اور موقع پر اس گواہی کو ظاہر کر دوں گا مگر زندگی کتنے روز ہے۔ اب بھی اظہار کا وقت ہے انسان کو اس سے کیا فائدہ کہ اپنی جسمانی زندگی کے لئے اپنی رُوحانی زندگی پر چھری پھیردے۔ مَیں نے بہت دفعہ حافظ صاحب سے یہ بات سُنی تھی کہ وہ میرے مصدقین میں سے ہیں اور مکذب کے ساتھ مباہلہ کرنے کو طیار ہیں اور اِسی میں بہت ساحصہ اُن کی عمر کا گذر گیا اور اس کی تائید میں وہ اپنی خوابیں بھی سُناتے رہے اور بعض مخالفوں سے انہوں نے مباہلہ بھی کیامگر کیوں پھر دنیا کی طرف جھک گئے۔ لیکن ہم اب تک اس بات سے نومید نہیں ہیں کہ خدا ان کی آنکھیں کھولے اور یہ امید باقی ہے جب تک کہ وہ اسی حالت میں فوت نہ ہو جائیں۔
اور یاد رہے کہ خاص موجب اِس اشتہار کے شائع کرنے کا وہی ہیں کیونکہ ان دنوں میں سب سے پہلے اُنہی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قرآن کی یہ دلیل کہ ’’اگر یہ نبی جھوٹے طور پر وحی کا دعویٰ کرتا تو مَیں اس کو ہلاک کر دیتا‘‘ یہ کچھ چیز نہیں ہے بلکہ بہتیرے ایسے مفتری دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہوں نے تیئیس برس