کہ تُونے اگر میرے پر افترا کیا تو مَیں تجھے ہلاک کر دوں گابلکہ وہ بوجہ اپنی نہایت درجہ کی ذلّت کے قابل التفات نہیں۔ کوئی شخص اُس کی پیروی نہیں کرتا کوئی اس کو نبی یا رسول یا مامور من اللہ نہیں سمجھتا۔ ماسوا اس کے یہ بھی ثابت کرنا چاہئے کہ اس مفتریانہ عادت پر برابر تیئیس برس گذر گئے۔ ہمیں حافظ محمد یوسف صاحب کی بہت کچھ واقفیت نہیں۔ مگر یہ بھی امید نہیں۔ خدا ان کے اندرونی اعمال بہتر جانتا ہے۔ ان کے دو قول تو ہمیں یاد ہیں اور سُنا ہے کہ اب اُن سے وہ انکار کرتے ہیں (۱) ایک یہ کہ چند سال کا عرصہ گذرا ہے کہ بڑے بڑے جلسوں میں انہوں نے بیان کیا تھا کہ مولوی عبد اللہ غزنوی نے میرے پاس بیان کیا کہ آسمان سے ایک نور قادیان پر گرا اور میری اولاد اس سے بے نصیب رہ گئی (۲) دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ نے انسانی تَمثّل کے طور پر ظاہر ہو کر ان کو کہا کہ مرزا غلام احمد حق پر ہے کیوں لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ اگر حافظ صاحب ان دو واقعات سے اب انکار کرتے ہیں جن کو بار بار بہت سے لوگوں کے پاس بیان کر چکے ہیں تو نعوذ باللہ بے شک انہوں نے خدا تعالیٰ پر افترا کیا ہے * کیونکہ جو شخص سچ کہتا ہے اگر وہ مر بھی جائے تب بھی انکار نہیں کر سکتا جیسا کہ ان کے بھائی محمد یعقوب نے اب بھی صاف گواہی دے دی ہے کہ ایک خواب کی تعبیر میں مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے فرمایا تھا کہ وہ نُور جو دنیا کو روشن کرے گا
* مَیں ہرگز قبول نہیں کروں گا کہ حافظ صاحب اِن ہر دو واقعات سے انکار کرتے ہیں۔ ان واقعات کا گواہ نہ صرف مَیں ہوں بلکہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت گواہ ہے اور کتاب ازالہ اوہام میں ان کی زبانی مولوی عبد اللہ صاحب کا کشف درج ہو چکا ہے۔ مَیں تو یقیناًجانتا ہوں کہ حافظ صاحب ایسا کذب صریح ہر گز زبان پر نہیں لائیں گے گو قوم کی طرف سے ایک بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں۔ اُن کے بھائی محمد یعقوب نے تو انکار نہیں کیا تو وہ کیونکر کریں گے۔ جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔ منہ