جانتے ہیں کہ خدا کی دلیل پیش کردہ سے استخفاف کرنا بالا تفاق کفر ہے کیونکہ اِس دلیل پر ٹھٹھا مارنا جو خدا نے قرآن اور رسول کی حقیت پر پیش کی ہے مستلزم تکذیب کتاب اللہ و رسول اللہ ہے اور وہ صریح کفر ہے۔ مگر ان لوگوں پر کیا افسوس کیا جائے شائد اِن لوگوں کے نزدیک خدا تعالیٰ پر افترا کرنا جائز ہے اور ایک بد ظن کہہ سکتا ہے کہ شائد یہ تمام اصرار حافظ محمد یوسف صاحب کا اور ان کا ہر مجلس میں بار بار یہ کہنا کہ ایک انسان تیئیس۲۳ برس تک خداتعالیٰ پر افترا کرکے ہلاک نہیں ہوتا اس کا یہی باعث ہو کہ انہوں نے نعوذ باللہ چند افترا خدا تعالیٰ پر کئے ہوں اور کہا ہو کہ مجھے یہ خواب آئی یا مجھے یہ الہام ہوا اور پھر اب تک ہلاک نہ ہوئے تو دل میں یہ سمجھ لیا کہ خدا تعالیٰ کا اپنے رسول کریم کی نسبت یہ فرمانا کہ اگر وہ ہم پر افترا کرتا تو ہم اُس کی رگِ جان کاٹ دیتے یہ بھی صحیح نہیں ہے۔* اور خیال کیا کہ ہماری رگِ جان خدا نے کیوں نہ کاٹ دی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت رسولوں اور نبیوں اور مامورین کی نسبت ہے جو کروڑہا انسانوں کو اپنی طرف دعوت کرتے ہیں اور جن کے افترا سے دنیا تباہ ہوتی ہے۔ لیکن ایک ایسا شخص جو اپنے تئیں مامورمن اللہ ہونے کا دعوٰی کرکے قوم کا مصلح قرار نہیںؔ دیتا اور نہ نبوت اور رسالت کا مدعی بنتا ہے اور محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتلانے کے لئے دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اور جھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتاہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے۔ ایسا خبیث اس لائق نہیں کہ خدا اُس کو یہ عزت دے
* ہمیں حافظ صاحب کی ذات پرہر گزیہ اُمید نہیں کہ نعوذباللہ کبھی انہوں نے خدا پر افترا کیا ہو اور پھر کوئی سزا نہ پانے کی وجہ سے یہ عقیدہ ہو گیا ہو۔ ہمارا ایمان ہے کہ خدا پر افترا کرنا پلید طبع لوگوں کا کام ہے اورآخر وہ ہلاک کئے جاتے ہیں۔منہ