تو چودہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا چودھویں صدی کا سر مسیح موعود کے لئے مقدر تھا تا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جس قدر قوموں میں فساد اور بگاڑ حضرت مسیح کے زمانہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک پیدا ہو گیا تھا اُس فساد سے وہ فساد دو چند ہے جو مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگا۔ اور جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں خدا تعالیٰ نے ایک بڑا اصول جو قرآن شریف میں قائم کیا تھا اور اُسی کے ساتھ نصاریٰ اور یہودیوں پر حجت قائم کی تھی یہ تھا کہ خدا تعالیٰ اُس کاذب کو جو نبوت یا رسالت اور مامورمن اللہ ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے مہلت نہیں دیتا اور ہلاک کرتا ہے۔ پس ہمارے مخالف مولویوں کی یہ کیسی ایمانداری ہے کہ منہ سے تو قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں مگر اس کے پیش کردہ دلائل کو ردّ کرتے ہیں۔ اگر وہ قرآن شریف پر ایمان لاکر اسی اصول کومیرے صادق یا کاذب ہونے کا معیار ٹھہراتے تو جلد تر حق کو پالیتے ۔لیکن میری مخالفت کے لئے اب وہ قرآن شریف کے اِس اصول کو بھی نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے کہ مَیں خدا کا نبی یا رسول یا مامور من اللہ ہوں جس سے خدا ہم کلام ہو کر اپنے بندوں کی اصلاح کے لئے وقتاً ؔ فوقتاً راہ راست کی حقیقتیں اس پر ظاہر کرتا ہے اور اس دعوے پر تیئیس یا پچیس برس گذر جائیں یعنی وہ میعاد گذر جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی میعاد تھی اور وہ شخص اس مدت تک فوت نہ ہو اور نہ قتل کیا جائے تو اس سے لازم نہیں آتاکہ وہ شخص سچا نبی یا سچا رسول یا خدا کی طرف سے سچا مصلح اور مجدّد ہے اور حقیقت میں خدا اُس سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کلمہ کفر ہے کیونکہ اس سے خدا کے کلام کی تکذیب و توہین لازم آتی ہے۔ ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت حقّہ کے ثابت کرنے کے لئے اسی استدلال کو پکڑا ہے کہ اگر یہ شخص خدا تعالیٰ پر افترا کرتا تو مَیں اس کو ہلاک کر دیتا اور تمام علماء