اور مکر سوچو جس قدر چاہو پھر یاد رکھو کہ عنقریب خدا تمہیں دکھلادے گا کہ اُس کا ہاتھ غالب ہے نادان کہتا ہے کہ مَیں اپنے منصوبوں سے غالب ہو جاؤں گا مگر خدا کہتا ہے کہ اے *** دیکھ مَیں تیرے سارے منصوبے خاک میں ملا دوں گا۔ اگر خدا چاہتا تو اِن مخالف مولویوں اور ان کے پَیروؤں کو آنکھیں بخشتا۔ اور وہ ان وقتوں اور موسموں کو پہچان لیتے جن میں خدا کے مسیح کا آنا ضروری تھا۔ لیکن ضرور تھا کہ قرآن شریف اور احادیث کی وہ پیشگوئیاں پوری ہوتیں جن میں لکھا تھا کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو اسلامی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔ وہ اس کو کافر قرار دیں گے اور اس کے قتل کے لئے فتوے دیئے جائیں گے اور اس کی سخت توہین کی جائے گی اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج اور دین کا تباہ کرنے والا خیال کیا جائے گا۔ سو ان دنوں میں وہ پیشگوئی انہی مولویوں نے اپنے ہاتھوں سے پوری کی۔ افسوس یہ لوگ سوچتے نہیں کہ اگر یہ دعویٰ خدا کے امر اور ارادہ سے نہیں تھا تو کیوں اس مدعی میں پاک اور صادق نبیوں کی طرح بہت سے سچائی کے دلائل جمع ہو گئے؟ کیا وہ رات ان کیلئے ماتم کی رات نہیں تھی جس میں میرے دعوے کے وقت رمضان میں خسوف کسوف عین پیشگوئی کی تاریخوں میں وقوؔ ع میں آیا۔ کیا وہ دن ان پر مصیبت کا دن نہیں تھا جس میں لیکھرام کی نسبت پیشگوئی پوری ہوئی۔ خدا نے بارش کی طرح نشان بر سائے مگر ان لوگوں نے آنکھیں بند کر لیں تا ایسا نہ ہو کہ دیکھیں اور ایمان لائیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ یہ دعویٰ غیر وقت پر نہیں بلکہ عین صدی کے سر پر اور عین ضرورت کے دنوں میں ظہور میں آیا اور یہ امر قدیم سے اور جب سے کہ بنی آدم پیدا ہوئے سنت اللہ میں داخل ہے کہ عظیم الشان مصلح صدی کے سر پر اور عین ضرورت کے وقت میں آیا کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد ساتویں صدی کے سر پر جبکہ تمام دنیا تاریکی میں پڑی تھی ظہور فرما ہوئے اور جب سات کو دُگنا کیا جائے