جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور مَیں ہوں جو شخص تیری نظر میں جھوٹا ہے اُس کو ایسے* موقع قتال میں ہلاک کر تو کیا اس دُعا کے وقت اُس کو گمان تھا کہ مَیں جھوٹا ہوں؟ اور جب لیکھرام نے کہا کہ میری بھی مرزا غلام احمد کی موت کی نسبت ایسی ہی پیشگوئی ہے جیسا کہ اس کی۔ اور میری پیشگوئی پہلے پوری ہو جائے گی اور وہ مرے گا۔* تو کیا اس کو اس وقت اپنی نسبت گمان تھا کہ مَیں جھوٹا ہوں؟ پس منکر تو دنیا میں ہوتے ہیں پر بڑا بد بخت وہ منکر ہے جو مرنے سے پہلے معلوم نہ کر سکے کہ مَیں جھوٹا ہوں۔ پس کیا خدا پہلے منکروں کے وقت میں قادر تھا اور اب نہیں؟ نعوذ باللہ ہر گز ایسا نہیں بلکہ ہر ایک جو زندہ رہے گا وہ دیکھ لے گا کہ آخر خدا غالب ہوگا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نےؔ اس کو قبول نہ کیا۔ لیکن خدا اُسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ وہ خدا جس کا قوی ہاتھ زمینوں اور آسمانوں اور اُن سب چیزوں کو جو اُن میں ہیں تھامے ہوئے ہے وہ کب انسان کے ارادوں سے مغلوب ہو سکتا ہے اور آخر ایک دن آتا ہے جو وہ فیصلہ کرتا ہے۔ پس صادقوں کی یہی نشانی ہے کہ انجام انہی کا ہوتا ہے۔ خدا اپنی تجلّیات کے ساتھ اُن کے دل پر نزول کرتا ہے۔ پس کیونکر وہ عمارت منہدم ہو سکے جس میں وہ حقیقی بادشاہ فروکش ہے ٹھٹھا کرو جس قدر چاہو گالیاں دو جس قدر چاہو اور ایذا اور تکلیف دہی کے منصوبے سوچو جس قدر چاہو۔ اور میرے استیصال کے لئے ہر ایک قسم کی تدبیریں ایسا ہی جب مولوی غلام دستگیر قصوری نے کتاب تالیف کرکے تمام پنجاب میں مشہور کر دیا تھا کہ مَیں نے یہ طریق فیصلہ قرار دے دیا ہے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے گا تو کیا اُس کو خبر تھی کہ یہی فیصلہ اس کے لئے *** کا نشانہ ہو جائے گا اور وہ پہلے مر کر دوسرے ہم مشربوں کا بھی مُنہ کالا کرے گا۔ اور آئندہ ایسے مقابلات میں اُن کے مُنہ پر مُہر لگا دے گا اور بُزدل بنا دے گا۔منہ * سہو کتابت ہے۔ یہاں ’’ایسے‘‘ کی بجائے ’’اسی ‘‘ ہونا چاہئے۔ جیسا کہ عربی عبارت سے واضح ہے۔ (ناشر)