کہ ہم دونوں فریق میں سے جو جھوٹا ہے وہ مر جائے۔ سو خدا نے اس کو بھی جلد تر اس جہان سے رخصت کر دیا۔ اور ان وفات یافتہ مولویوں کا ایسی دعاؤں کے بعد مر جانا ایک خدا ترس مسلمان کے لئے تو کافی ہے۔ مگر ایک پلید دل سیاہ دل دنیا پرست کے لئے ہر گز کافی نہیں۔ بھلا علیگڑھ تو بہت دُور ہے اور شائد پنجاب کے کئی لوگ مولوی اسماعیل کے نام سے بھی ناواقف ہوں گے مگر قصور ضلع لاہور تو دُور نہیں اور ہزاروں اہل لاہور مولوی غلام دستگیر قصوری کو جانتے ہوں گے اور اس کی یہ کتاب بھی انہوں نے پڑھی ہوگی تو کیوں خدا سے نہیں ڈرتے۔ کیا مرنا نہیں؟ کیا غلام دستگیر کی موت میں بھی لیکھرام کی موت کی طرح سازش کا الزام لگائیں گے؟ خدا کی جھوٹوں پر نہ ایک دم کے لئے *** ہے بلکہ قیامت تک *** ہے۔ کیا دنیا کے کیڑے محض سازش اور منصوبہ سے خدا کے مقدس مامورین کی طرح کوئی قطعی پیشگوئی کر سکتے ہیں۔ایک چورجو چوری کے لئے جاتا ہے اس کو کیا خبر ہے کہ وہ چوری میں کامیاب ہو یا ماخوذ ہو کر جیل خانہ میں جائے۔ پھر وہ اپنی کامیابی کی زور شور سے تمام دنیا کے سامنے دشمنوں کے سامنے کیا پیشگوئی کرے گا؟ مثلاً دیکھو کہ ایسی پُر زور پیشگوئی جو لیکھرام کے قتل کئے جانے کے بارے میں تھی جس کے ساتھ دن تاریخ وقت بیان کیا گیا تھا کیا کسی شریر بد چلن خونی کا کام ہے؟ غرض ان مولویوں کی سمجھ پر کچھ ایسے پتھر پڑ گئے ہیں کہ کسی نشان سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ براہین احمدیہ میں قریباً سولہ برس پہلے بیان کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ میری تائید میں خسوف کسوف کا نشان ظاہر کرے گا۔ لیکن جب وہ نشان ظاہر ہو گیا اور حدیث کی کتابوں سے بھی کھل گیا کہ یہ ایکؔ پیشگوئی تھی کہ مہدی کی شہادت کے لئے اس کے ظہور کے وقت میں رمضان میں خسوف کسوف ہوگا تو ان مولویوں نے اس نشان کو بھی گاؤ خورد کر دیا اور حدیث سے مُنہ پھیر لیا۔ یہ بھی احادیث میں آیا تھا کہ مسیح کے وقت میں