اٹھاتے اور خدا سے ڈرتے اور توبہ کرتے۔ ہاں ان لوگوں کی ان چند نمونوں کے بعد کمریں ٹوٹ گئیں اور اس قسم کی تحریروں سے ڈر گئے فلن یکتبوا بمثل ھذا بما تقدمت الامثال۔ یہ معجزہ کچھ تھوڑا نہیں تھا کہ جن لوگوں نے مدارِ فیصلہ جھوٹے کی موت رکھی تھی وہ میرے مرنے سے پہلے قبروں میں جا سوئے۔ اور مَیں نے ڈپٹی آتھم کے مباحثہ میں قریباً ساٹھ آدمی کے رو برو یہ کہا تھا کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا سو آتھم بھی اپنی موت سے میری سچائی کی گواہی دے گیا۔ مجھے ان لوگوں کی حالتوں پر رحم آتا ہے کہ بخل کی وجہ سے کہاں تک ان لوگوں کی نوبت پہنچ گئی۔ اگر کوئی نشان بھی طلب کریں تو کہتے ہیں کہ یہ دعا کرو کہ ہم سات دن میں مر جائیں۔ نہیں جانتے کہ خود تراشیدہ میعادوں کی خدا پیروی نہیں کرتا اُس نے فرمایا دیا ہے کہ 3 ۱؂ اور اُس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمادیا کہ 33 ۲؂۔ سو جبکہ سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کی میعاد اپنی طرف سے پیش نہیں کر سکتے تو مَیں سات دن کا کیونکر دعویٰ کروں۔ ان نادان ظالموں سے مولوی غلام دستگیر اچھا رہا کہ اُس نے اپنے رسالہ میں کوئی میعاد نہیں لگائی۔ یہی دعا کی کہ یا الٰہی اگر مَیں مرزا غلام احمد قادیانی کی تکذیب میں حق پر نہیں تو مجھے پہلے موت دے اور اگر مرزا غلام احمد قادیانی اپنے دعوےٰ میں حق پر نہیں تو اُسے مجھ سے پہلے موت دے۔ بعد اِس کے بہت جلد خدا نے اس کو موت دے دی۔ دیکھو کیسا صفائی سے فیصلہ ہو گیا۔ اگر کسی کو اس فیصلہ کے ماننے میں تردّد ہو تو اس کو اختیار ہے کہ آپ خدا کے ؔ فیصلہ کو آزمائے لیکن ایسی شرارتیں چھوڑ دے جو آیت 333۳؂ سے مخالف پڑی ہیں شرارت کی حجت بازی سے صریح بے ایمانی کی بُو آتی ہے۔ ایسا ہی مولوی محمد اسمٰعیل نے صفائی سے خدا تعالیٰ کے رو برو یہ درخواست کی