اور آسمانی نشان بھی اسی کی تائید میں نازل ہوں اور عقل بھی اسی کی مؤید ہو اور جو اس کی موت کے شائق ہوں وہی مرتے جائیں۔ مَیں ہر گز یقین نہیں کرتا کہ زمانہ نبوی کے بعد کسی اہل اللہ اور اہل حق کے مقابل پر کبھی کسی مخالف کو ایسی صاف اور صریح شکست اور ذلت پہنچی ہو جیسا کہ میرے دشمنوں کو میرے مقابل پر پہنچی ہے۔ اگر انہوں نے میری عزت پر حملہ کیا تو آخر آپ ہی بے عزت ہوئے اور اگر میری جان پر حملہ کرکے یہ کہا کہ اس شخص کے صدق اور کذب کا معیار یہ ہے کہ وہ ہم سے پہلے مرے گا تو پھر آپ ہی مر گئے۔ مولوی غلام دستگیر کی کتاب تو دُور نہیں مدّت سے چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ دیکھو وہ کس دلیری سے لکھتا ہے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا اور پھر آپ ہی مر گیا اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ میری موت کے شائق تھے اور انہوں نے خدا سے دعائیں کیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مرے آخر وہ مر گئے نہ ایک نہ دو بلکہ پانچ آدمی نے ایسا ہی کہا اور اس دنیا کو چھوڑ گئے۔ اس کا نتیجہ موجودہ مولویوں کے لئے جو محمد حسین بٹالوی اور مولوؔ ی عبدالجبار غزنوی ثم امرتسری اور عبد الحق غزنوی ثم امرتسری اور مولوی پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور رشید احمد گنگوہی اور نذیر حسین دہلوی اور رُسل بابا امرتسری اور منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ اور حافظ محمد یوسف ضلعدار نہر وغیر ہم کے لئے یہ تو نہ ہوا کہ اس اعجاز صریح سے یہ لوگ فائدہ
کھڑا ہوا۔ افسوس ان لوگوں کی کہاں تک حالت پہنچ گئی ہے کہ ایسی خلاف واقعہ باتیں مُنہ پر لاتے ہیں جن کی کچھ بھی اصلیت نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بد قسمت نے ہر ایک طور سے مجھ پر حملے کئے اور نامراد رہا۔ لوگوں کو بیعت سے روکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزارہا لوگ میری بیعت میں داخل ہو گئے۔ اقدام قتل کے جھوٹے مقدمہ میں پادریوں کا گواہ بن کر میری عزت پر حملہ کیا۔ مگر اُسی وقت کرسی مانگنے کی تقریب سے اپنی نیت کا پھل پا لیا۔ میرے پرائیویٹ امور میں گندے اشتہار دیئے ان کا جواب خدا نے پہلے سے دے رکھا ہے میرے بیان کی حاجت نہیں۔منہ