مدعیء رسالت کو تیس برس تک مہلت دی اور لو تقوّل علینا کے وعدہ کا کچھ خیال نہ کیا تو اسی طرح نعوذ باللہ یہ بھی قریب قیاس ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی باوجود کاذب ہونے کے مہلت دے دی ہو مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کاذب ہونا محال ہے۔ پس جو مستلزم محال ہو وہ بھی محالؔ ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ قرآنی استدلال بدیہی الظہور جبھی ٹھہر سکتا ہے جبکہ یہ قاعدہ کلی مانا جائے کہ خدا اس مفتری کو جو خلقت کے گمراہ کرنے کے لئے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہو کبھی مہلت نہیں دیتا کیونکہ اس طرح پر اس کی بادشاہت میں گڑبڑپڑ جاتا ہے اور صادق اور کاذب میں تمیز اٹھ جاتی ہے۔ غرض جب میرے دعویٰ کی تائید میں یہ دلیل پیش کی گئی تو حافظ صاحب نے اس دلیل سے سخت انکار کرکے اس بات پر زور دیا کہ کاذب کا تیئیس۲۳ برس تک یا اس سے زیادہ زندہ رہنا جائز ہے اور کہا کہ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسے کاذبوں کی میں نظیر پیش کروں گاجو رسالت کا جھوٹا دعویٰ کرکے تیئیس برس تک یا اس سے زیادہ رہے ہوں مگر اب تک کوئی نظر پیش نہیں کی۔ اور جن لوگوں کو اسلام کی کتابوں پر نظر ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ آج تک علماء امت میں سے کسی نے یہ اعتقاد ظاہر نہیں کیا کہ کوئی مفتری علی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تیئیس برس تک زندہ رہ سکتا ہے بلکہ یہ تو صریح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ اور کمال بے ادبی ہے اور خدا تعالیٰ کی پیش کردہ دلیل سے استخفاف ہے۔ ہاں ان کا یہ حق تھا کہ مجھ سے اس کا ثبوت مانگتے کہ میرے دعویٰ مامور من اللہ ہونے کی مدت تیئیس برس یا اس سے زیادہ اب تک ہو چکی ہے یا نہیں۔ مگر حافظ صاحب نے مجھ سے یہ ثبوت نہیں مانگا کیونکہ حافظ صاحب بلکہ تمام علماءِ اسلام اور ہندو اور عیسائی اس بات کو جانتے ہیں کہ براہین احمدیہ جس میں یہ دعویٰ ہے اور جس میں بہت سے مکالمات الہٰیہ درج ہیں اس کے شائع ہونے پر اکیس برس گذر چکے