حافظ صاحب یہ بھی کہہ دیں کہ قرآن کی یہ دلیل بھی کہ 33 ۱ باطل ہے اور دعویٰ کریں کہ مَیں دکھلا سکتا ہوں کہ خدا کے سوا اَور بھی چند خدا ہیں جو سچے ہیں مگر زمین و آسمان پھر بھی اب تک موجود ہیں پس ایسے بہادر حافظ صاحب سے سب کچھ امید ہے لیکن ایک ایماؔ ن دار کے بدن پر لرزہ شروع ہو جاتا ہے جب کوئی یہ بات زبان پر لاوے جو فلاں بات جو قرآن میں ہے وہ خلاف واقعہ ہے یا فلاں دلیل قرآن کی باطل ہے بلکہ جس امر میں قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر زد پڑتی ہو ایماندار کا کام نہیں کہ اس پلید پہلو کو اختیار کرے۔ اور حافظ صاحب کی نوبت اس درجہ تک محض اس لئے پہنچ گئی کہ انہوں نے اپنے چند قدیم رفیقوں کی رفاقت کی وجہ سے میرے منجانب اللہ ہونے کے دعویٰ کا انکار مناسب سمجھا اور چونکہ درو غ گو کو خدا تعالیٰ اسی جہان میں ملزم اور شرمسار کر دیتا ہے اس لئے حافظ صاحب بھی اور منکروں کی طرح خدا کے الزام کے نیچے آگئے اور ایسا اتفاق ہوا کہ ایک مجلس میں جس کا ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں میری جماعت کے بعض لوگوں نے حافظ صاحب کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں ایک شمشیر برہنہ کی طرح یہ حکم فرماتا ہے کہ یہ نبی اگر میرے پر جھوٹ بولتا اور کسی بات میں افترا کرتا تو میں اس کی رگِ جان کاٹ دیتا اور اس مدت دراز تک وہ زندہ نہ رہ سکتا۔ تو اب جب ہم اپنے اس مسیح موعود کو اس پیمانہ سے ناپتے ہیں تو براہین احمدیہ کے دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعوےٰ منجانب اللہ ہونے اور مکالماتِ الہٰیہ کا قریبًا تیس۳۰ برس سے ہے اور اکیس۲۱ برس سے براہین احمدیہ شائع ہے پھر اگر اس مدت تک اس مسیح کا ہلاکت سے امن میں رہنا اس کے صادق ہونے پر دلیل نہیں ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیئیس۲۳ برس تک موت سے بچنا آپ کے سچا ہونے پر بھی دلیل نہیں ہے کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ نے اس جگہ ایک جھوٹے