تربیت کرنا چاہتا ہے اور اسی ربوبیت کے تقاضا کی وجہ سے اُس نے اس رسول کو بھیجا ہے۔ اور اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنا لیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے حالانکہ وہ کلام اس کا ہوتا نہ خدا کا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اس کی رگ جان کاٹ دیتے اور کوئی تم میں سے اس کو بچانہ سکتا۔ یعنی اگر وہ ہم پر افترا کرتا تو اس کی سزا موت تھی کیونکہ وہ اس صورت میں اپنے جھوٹے دعویٰ سے افترا اور کفر کی طرف بلا کر ضلالت کی موت سے ہلاک کرنا چاہتا تو اس کا مرنا اس حادثہ سے بہتر ہے کہ تمام دنیا اس کی مفتریانہ تعلیم سے ہلاک ہو۔ اس لئے قدیم سے ہماری یہی سنت ہے کہ ہم اُسی کو ہلاک کر دیتے ہیں جو دنیا کے لئے ہلاکت کی راہیں پیش کرتا ہے اور جھوٹی تعلیم اور جھوٹے عقائد پیش کرکے مخلوق خدا کی روحانی موت چاہتا ہے اور خدا پر افترا کرکے گستاخی کرتا ہے۔ اب ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اگر وہ ہماری طرف سے نہ ہوتا تو ہم اس کو ہلاک کر دیتے اور وہ ہر گز زندہ نہ رہ سکتا گو تم لوگ اس کے بچانے کے لئے کوشش بھی کرتے لیکن حافظ صاحب اس دلیل کو نہیں مانتے اور فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی تمام وکمال مدت تیئیس۲۳ برس کی تھی اور میں اس سے زیادہ مدت تک کے لوگ دکھا سکتا ہوں جنہوں نے جھوٹے دعوے نبوت اور رسالت کے کئے تھے اور باوجود جھوٹ بولنے اور خدا پر افترا کرنے کے وہ تیئیس۲۳ برس سے زیادہ مدت تک زندہ رہے لہٰذا حافظ صاحب کے نزدیک قرآن شریف کی یہ دلیل باطل اور ہیچ ہے اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ثابت نہیںؔ ہو سکتی مگر تعجب کہ جبکہ مولوی رحمت اللہ صاحب مرحوم اور مولوی سیّدآل حسن صاحب مرحوم نے اپنی کتاب ازالہ اوہام اور استفسار میں پادری فنڈل کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی تو پادری فنڈل صاحب کو