کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہمارے پر نازل ہوتا ہے حالانکہ وہ کاذب تھے۔ غرض حافظ صاحب نے محض اپنے مشاہدہ کا حوالہ دے کر مذکورہ بالا دعوے پر زور دیا جس سے لازم آتا تھا کہ قرآن شریف کا وہ استدلال جو آیات مندرجہ ذیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منجانب اللہ ہونے کے بارے میں ہے صحیح نہیں ہے اور گویا خدا تعالیٰ نے سراسر خلاف واقعہ اس حجت کو نصاریٰ اور یہودیوں اور مشرکین کے سامنے پیش کیا ہے اور گویا اَئمہ اور مفسّرین نے بھی محض نادانی سے اس دلیل کو مخالفین کے سامنے پیش کیا یہاں تک کہ شرح عقائد نسفی میں بھی کہ جو اہل سنت کے عقیدوں کے بارے میں ایک کتاب ہے عقیدہ کے رنگ میں اِس دلیل کو لکھا ہے اور علماء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ استخفاف قرآن یا دلیل قرآن کلمۂ کفر ہے مگر نہ معلوم کہ حافظ صاحب کو کس تعصب نے اِس بات پر آمادہ کر دیا کہ باوجود دعویٰ حفظِ قرآن مفصلہ ذیل آیات کو بھول گئے۔ اور وہ یہ ہیں:۔3۔333۔33۔3۔3۔3۔3 3۔33۔ 33 3 ۔۱ دیکھو سورۃ الحاقہ الجزو نمبر۲۹۔ اور ترجمہ اس کا یہ ہے کہ یہ قرآن کلام رسول کا ہے یعنی وحی کے ذریعہ سے اس کو پہنچا ہے۔ اور یہ شاعر کا کلام نہیں مگر چونکہ تمہیں ایمانی فراست سے کم حصہ ہے اس لئے تم اس کو پہچانتے نہیں۔ اور یہ کاہن کا کلام نہیں۔ یعنی اس کا کلام نہیں جو جنّات سے کچھ تعلق رکھتا ہو مگر تمہیں تدبّر اور تذکّر کا بہت کم حصّہ دیا گیا ہے اس لئے ایسا خیال کرتے ہو۔ تم نہیں سوچتے کہ کاہن کس پست اور ذلیل حالت میں ہوتے ہیں بلکہ یہ ربّ العالمین کا کلام ہے جو عالم اجسام اور عالم ارواح دونوؔ ں کا ربّ ہے یعنی جیسا کہ وہ تمہارے اجسام کی تربیت کرتا ہے ایسا ہی وہ تمہاری رُوحوں کی