اور اس تفرقہ اور آپ لوگوں کی تکذیب کی وجہ سے اسلام میں ضعف آرہا ہے اور جبکہ ہزارہا تک اس جماعت کی نوبت پہنچ گئی ہے اور ہر ایک میرے مرید کی تکفیر کی گئی ہے تو اندازہ تفرقہ ظاہر ہے۔ ایسے وقت میں اسلامی محبت کا یہی تقاضا ہے کہ جیسے نماز استسقاء کے لئے تضرع اور انکسار سے جنگل میں جاتے ہیں ایسا ہی اس مجمع میں بھی متضرعانہ صورت بنائیں اور کوشش کریں کہ حضور دل سے دعائیں ہوں اور گریہ وبکا کے ساتھ ہوں۔ خدا مخلصین کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ پس اگر یہ کاروبار اس کی طرف سے نہیں ہیں اور انسانی افترااور بناوٹ ہے تو اُمت مرحومہ کی دعا جلد عرش تک پہنچے گی اور اگر میرا سلسلہ آسمانی ہے اور خدا کے ہاتھ سے برپا ہے تو میری دعا سنی جائے گی۔ پس اےؔ بزرگو! برائے خدا اس بات کو تو قبول کرو۔ زیادہ مجمع کی ضرورت نہیں۔ علماء میں سے چالیس آدمی جمع ہو جائیں اِس سے کم بھی نہیں چاہئے کہ چالیس کے عدد کو قبولیت دعا کے لئے ایک بابرکت دخل ہے اور دنیا داروں میں سے جو چاہے شامل ہو جائے۔ اور دُعا تضرع سے اور رو رو کر کی جائے۔ اگرچہ ہر ایک صاحب کو کسی قدر سفر کی تکلیف تو ہوگی اور کچھ خرچ بھی ہوگا لیکن بڑی اُمید ہے کہ خدا فیصلہ کردے گا۔ اے بزرگو اور قوم کے مشائخ اور علماء! پھر میں آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ اس درخواست کو ضرور قبول فرمائیں۔ ہاں یہ امر بھی ذکر کرنے کے لائق ہے کہ چونکہ برسات اور گرمی میں سفر کرنا تکلیف سے خالی نہیں اور موسمی بیماریاں بھی ہوتی ہیں اس لئے اس مجمع کے لئے ۱۵؍اکتوبر۱۹۰۰ء ؁ جو موسم اچھا ہوگا موزوں ہے۔ اِس میں کچھ حرج نہیں کہ ہمارے مخالفوں کی طرف سے پِیر مہر علی شاہ صاحب گولڑی یا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یا مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی اس انتظام کے لئے امیر طائفہ یا بطور سکرٹری بن جائیں اور باہم مشورہ کے بعد منظوری کا اشتہار دے دیں مگر برائے خدا اب کسی اور شرط سے اس اشتہار کو محفوظ رکھیں۔ میں نے محض خدا کیلئے