شاہد ہے۔ آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ توفّی کے معنے بجز قبض رُوح کے اور کچھ نہیں۔* پھر یہ دوسری آیت کہ33 ۱ یہ وہ آیت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں حضرت ابو بکر ر ضی اللہ عنہ نے اِس استدلال کی غرض سے پڑھی تھی کہ تمام گزشتہ انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور اس پر تمام صحابہ کا اجماع ہو گیا تھا۔ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات میں حضرت مسیح کو وفات شدہ انبیاء کی جماعت میں دیکھا۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مسیح نے ایک سو بیس برس عمر پائی اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو میری پیروی کرتے اور قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا گیا تو اب بتلاؤ کہ اِن تمام نصوص کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات میں کونسا شبہ باقی رہ گیا۔ رہا میرا دعویٰ سو وہ بھی بے سندنہیں۔ بخاری اور مسلم میں صاف لکھا ہے کہ مسیح موعود اسی اُمت میں سے ہوگا۔ اور خدا نے میرے لئے آسمان پر رمضان میں سورج اور چاند کا خسوف کسوف کیا اور ایسا ہی زمین پر بہت سے نشان ظہور میں آئے اور سنت اللہ کے موافق حجت پوری ہوگئی اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ؔ میری جان ہے کہ اگر آپ لوگ اپنے دلوں کو صاف کرکے کوئی اور نشان خدا کا دیکھنا چاہیں تو وہ خداوند قدیر بغیر اس کے کہ آپ لوگوں کے کسی اقتراح کا تابع ہو اپنی مرضی اور اختیار سے نشان دکھلانے پر
* جیسا کہ لغت میں توفّی کے معنے جہاں خدا فاعل اور انسان مفعول بہٖ ہو بجز مارنے کے اور کچھ نہیں۔ ایسا ہی قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک توفّی کا لفظ صرف مارنے اور قبض روح پر ہی استعمال ہوا ہے۔ بجز اس کے سارے قرآن میں اور کوئی معنے نہیں۔ منہ