وہ قوم کی پیش کردہ باتوں میں سے کچھ تو منظور کرتا ہے اور کچھ ردّ کر دیتا ہے اور اس کی نسبت اُن لوگوں نے جو جو علامتیں مقرر کی ہوئی ہوتی ہیں کچھ تو اس پر صادق آجاتی ہیں اور کچھ صادق نہیں آتیں کیونکہ اُن میں کچھ ملونی ہو جاتی ہے یا اُلٹے معنے کئے جاتے ہیں۔ پس جو شخص میری نسبت یہ ضد کرتا ہے کہ جب تک وہ تمام علامتیں جو سنیوں اور شیعوں نے مسیح اور مہدی کی نسبت بنا رکھی ہیں پوری نہ ہو جائیں تب تک ہم نہیں مانیں گے تو وہ سخت ظلم کرتا ہے ایسا شخص اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پاتا تو آپ کو کبھی نہ مانتا اور اگر حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں ہوتا تو ان کو بھی قبول نہ کرتا لہٰذا طالب حق کے لئے یہی طریق صاف اور بے خطر ہے کہ جس شخص کی تصدیق کے لئے آسمانی نشانیاں ظہور میں آگئی ہوں اس کی تکذیب سے ڈریں۔ کیونکہ حدیثوں کی تحریریں جن میں سے ہریک فرقہ اپنے اپنے مذہب کی تائید میں ایک ذخیرہ اپنے پاس رکھتا ہے دراصل ظن سے کچھ زیادہ مرتبہ نہیں رکھتیں۔ اور ظن یقین کو رفع نہیں کر سکتا۔ مثلاً یہ تمام ظنی باتیں ہیں کہ مسیح موعود آسمان سے اُترے گا۔ بلکہ صرف شکی اور وہمی اور بے اصل ہیں۔ کیونکہؔ قرآن کے مخالف ہیں اور حدیث معراج بھی اس کی مکذب ہے۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو آسمان پر گئے تھے۔ مگر کس نے چڑھتے یا اُترتے دیکھا ہے؟
القصہ اے بزرگان قوم! آپ لوگ جو مجھے دجال اور کافر کہتے اور مفتری سمجھتے ہیں آپ لوگ سوچ کر دیکھ لیں کہ اتنی زبان درازی اور دلیری کے لئے آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟ کیا سچ نہیں کہ قرآن شریف جو خدا کا کلام ہے اس کے نصوص صریحہ سے تو حضرت مسیح کی موت ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ خدا نے صاف لفظوں میں فرمادیا کہ وہ وفات پا چکا جیسا کہ آیت فلمّا توفّیتنی اس پر